• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگوں کو 20 سال اور کچھ کو 20 دن بھی فیصلہ یاد نہیں رہیگا، اپوزیشن مایوس

اسلام آباد (انصار عباسی) کچھ لوگوں کو پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ 20 سال اور کچھ کو 20 دن بھی فیصلہ یاد نہیں رہے گا۔ فیصلے سے اپوزیشن کو مایوسی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان کے تحریر کردہ فیصلے میں درخواست گزاروں یا اپوزیشن جماعتوں کیلئے کئی باتیں مایوس کن ہیں، جو وزیراعظم کو ہٹائے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ شریف خاندان کے مخالفین کیلئے صرف باعث اطمینان بات یہ ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا گیا ہے جو شریف خاندان کے معاملات کی تحقیقات کرے گی۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں نواز شریف کیخلاف کوئی ٹھوس بات سامنے آئی تو وہ مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ تاہم، یہاں بھی کچھ زیادہ سامنے آنے کی توقع نہیں ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کو جن سرکاری محکموں سے لیا جائے گا وہ سرکار کے ماتحت ہی ہیں۔ دوسری صورت میں بھی مالی امور کے حوالے سے فیصلے میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ وزیراعظم کے والد مرحوم میاں محمد شریف کے دور سے جڑے ہیں۔ جمعرات کو جو فیصلہ سنایا گیا ہے شریف خاندان کے حوالے سے اسی فیصلے کی توقع تھی۔ شریف خاندان کیلئے خوشی کی بات یہ ہے کہ فیصلے میں مریم نواز، اسحاق ڈار، کیپٹن (ر) صفدر کو معاملے سے خارج رکھا گیا ہے کیونکہ جے آئی ٹی صرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کے دو بیٹوں کیخلاف ماضی کے مالی امور کے حوالے سے تحقیقات کرے گی۔ بظاہر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کی تفصیلی شکل ہے جو گزشتہ سال سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پاناما کیس کی درخواستیں واپس کرتے ہوئے کہا تھا۔ فیصلے میں درخواستوں گزاروں کی بیشتر استدعا مسترد ہو چکی ہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 3-184 کےتحت عدالت ایسے امور پر عمل نہیں کر سکتی۔ گزشتہ سال اگست میں، سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے درخواستیں واپس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’درخواست گزار براہِ راست آئین کے آرٹیکل 3-184 کے تحت سپریم کورٹ کے غیر معمولی اختیارات کو فعال کررہا ہے جس کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ درخواست گزار (عمران خان) نے اسی ریلیف کے حصول کیلئے کسی دوسرے موزوں فورم سے رجوع نہیں کیا۔ انہوں نے ایسا نہ کرنے کا جواز بھی پیش نہیں کیا۔‘‘ زیادہ تر توقع کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ کم از کم حکومت کو ہدایت کرے گی کہ ریاستی اداروں جیسا کہ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر میں اصلاحات لا کر انہیں سیاسی اور بیرونی مداخلت اور دبائو سے پاک کیا جائے تاکہ وہ کرپشن، فراڈ، ٹیکس چوری وغیرہ جیسے جرائم کی شفاف تحقیقات کر سکیں۔ لیکن اس کیس میں بھی، سپریم کورٹ نے ان اداروں میں اصلاحات کیلئے حکومت کو کسی طرح کی ہدایت دینے سے گریز کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے، ’’ہاں، ممکن ہے کہ نیب اور ایف آئی اے میں اعلیٰ سطح پر موجود افسران غلط اقدامات کی طرف نہ دیکھیں اور اپنے بندھے ہاتھوں کے ساتھ اپنے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے فیصلے کرنے والی اشرافیہ کی طرف دیکھیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت کوئی ایسا فیصلہ کرے جس کا اختیار اس کے پاس نہیں یا پھر آئین کی شقوں، اقتدار کی تقسیمِ ثلاثی (ٹرائیکوٹومی) کی نگرانی کے قانون اور عدالتوں کو تفویض شدہ دائرۂ اختیار کیخلاف کوئی اقدام کرے۔‘‘ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’طے شدہ سمت سے ہٹنے کے نتیجے میں بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔۔۔ مسئلے کا حل نظر انداز (بائی پاس) کرنے میں نہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت اداروں کو فعال کرنے کے راستے پر جانا میں ملے گا۔ سیاسی جذباتیت، سیاسی مہم جوئی یا پھر مقبول جذبات، چاہے وہ حقیقی ہوں یا مصنوعی، کسی بھی شخص کو کئی لوگوں کو گمراہی کے راستے پر لیجا جاسکتی ہے لیکن ہمیں قانون کے مطابق چلنا ہے۔ ہمیں آئین اور قانون میں وضع کردہ حدود کے اندر رہنا ہوگا، تاوقتیکہ ان میں کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جاتی۔‘‘ اس فیصلے کی روشنی میں وزیراعظم کے خطبات میں تضادات، لندن کی جائیدادوں کے حوالے سے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے بیانات میں عدم توازن، حدیبیہ ملز کیس دوبارہ کھولنے کا سوال، غلط بیانی پر آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت وزیراعظم کی نا اہلی وغیرہ جیسے معاملات اب ختم ہوگئے۔ اب نواز شریف اور ان کے دو بیتوں کو ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا کہ گلف اسٹیل مل کیسے وجود میں آئی، اسے کیوں فروخت کیا گیا، اس کی واجبات کا کیا ہوا، فروخت کے بعد اس کے معاملات کا کیا ہوا، وہ جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچے، کیا وزیراعظم کے بیٹوں کے پاس 90ء کے اوائل میں ایسے کوئی ذرائع تھے کہ وہ فلیٹ رکھ سکیں اور خرید سکیں، قطری خط حقیقت ہے یا فسانہ، آف شور کمپنیاں کس کی ملکیت تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سوالات ان سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پوچھے گی جو سرکاری حکام پر مشتمل ہوگی جس کی قیادت ڈی جی ایف آئی اے کریں گے، جسے کوئی او نہیں بلکہ وزیراعظم خود مقرر کرتے ہیں۔
تازہ ترین