• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمپنیاں اور فلیٹ اصل میں نواز شریف کے ہیں ، جسٹس گلزار کااختلافی نوٹ

راولپنڈی (نیوز ڈیسک) پاناما کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمدنے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ کمپنیاں اور فلیٹ اصل میں نواز شریف کے ہیں ، وہ صادق اور امین نہیں رہے انہیں وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کیا جائے ، عدالت سے محض تماشائی اور ایک بے ضرر ادارے کے طور پر بیٹھے رہنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1۔میں نے مجوزہ فیصلہ کا مطالعہ کیا جو میرے انتہائی عالم فاضل بھائی آصف سعید خان کھوسہ نے تحریر کیا ہے تا ہم میری خواہش ہے کہ میں اس میں ایک نکتے پر مبنی اپنا نوٹ بھی شامل کروں۔ میرا اندازہ ہے اس مقدمے کی سماعت کے دوران اٹھائے جانے والے سوالات اور دلائل کے حوالے سے یہ انتہائی اہم اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے ۔۲۔ابتدا سے ہی میں پوری طرح واضح تھا اور میرا اس پرا صرار تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی طرح کا ڈیکلریشن دے اور کوئی لازمی آرڈر جاری کرے جو اس مقدمے کی ضرورت اور اس میں سے ابھرنے والے حالات اور نتائج کے متقاضی ہے ،ا س ضمن میں عدالت نے بار بار فیصلے دیے ، ان میں معاملے کو خصوصی طور پر دیکھا گیا۔ اس کے جوابات کوریفرنس کے طورپر ذیل میں پیش کر رہا ہوں ۔3۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973کے آئین کے تحت آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت کو جو اختیار دیا گیا ہے  وہ حسب ذیل ہے ۔184(3)  آئین کے آرٹیکل 199کے تحت بغیر کسی جانبداری کے سپریم کورٹ اگر سمجھتی ہے کہ باب ایک اور دو میں دیےگئے بنیادی  حقوق کے نفاذ کے لیے عوامی اہمیت کا ریفرنس پیش نظر ہے تو یہ اس کا اختیا ر ہے کہ وہ اس آرٹیکل میں دیے گئے اختیار کے تحت آرڈر جاری کرے ، اس عدالت کو آزاد اور لامحدود اختیارا ت حاصل ہیں کہ وہ اس بارے میں آرڈر جاری کرے ، شاہدپرویز  و دیگر بنام اعجاز احمد و دیگر میں بھی عدالت نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پارلیمنٹ سمیت کسی کا بھی بنایا گیا قانون جو آئین کے باب ایک اور دو کے تحت بنیادی انسانی حقوق کے علی الر غم ثابت ہو تو اس کا وجود ختم کر دیا جاتا ہے ، انجم عقیل خان  ودیگر بنام نیشنل پولیس فائونڈیشن بذریعہ ایم ڈ ودیگر ، قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے اختیارات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدالت کا فیصلہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اسے وسیع اختیارات حاصل ہیں ۔اگر بنیادی حقوق کے نفاذ کا معاملہ سامنے موجود ہوتو اس بارے میں وہ مناسب احکامات جاری کر سکتی ہے ۔ علی اظہر خان بلوچ و دیگر بنام صوبہ سندھ و دیگر کے بارے میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 184  (3)کے کے باب ایک اور دو میں دیے گئے بنیادی حقوق کا جب معاملہ ہو تو عدالت اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ جاری کرسکتی ہے ، یہ واضح رہے کہ غور کا مطلب عدالت کا موضوع پر اپنا تجزیہ ہے ، یہ عدالت آئینی قواعد کے بارے میں حتمی اتھارٹی ہے اس لیے جب عدالت آئین میں دیے گئےبنیادی حقوق کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائے تو اس صورت میں حکومت یا کسی ودسری جماعت کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ۔ خالدا قبال اور دیگر بنام مرزا خان و دیگر میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سپریم کورٹ پر آئین کے تحت دیے گئے فیصلے پر نظر ثانی یا ان کو تبدیل کر نے کے حوالے سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ، سوائے اس کے کہ نظر ثانی کا تعلق شہریوںکے بنیادی حقوق یا عوامی مفاد سے نہ ہو ، عدالت کو یہ کلی اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184 (3)،187یا188 کے تحت ازخود نوٹس کے دیے گئے فیصلوں پر دوبارہ غور کرے ،نظر ثانی کرے یا ان کو ایک طرف رکھ دے ، یہ عدالت کسی بھی درخواست گزار پر انحصار نہیں کرتی ۔آصف فصیح الدین خان وردگ بنام حکومت پاکستان و دیگر جو حکومت پاکستان کی بغیر میرٹ اور تشہیر کے تعیناتیوں کے بارے میں تھی میں بھی عدالت نے فیصلہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ آئین کے تحت انتظامیہ اور مقننہ کو بھی دیے گئے بنیادی حقوق کے برعکس کسی بھی اقدام کی اجازت نہ دے ، اسی طرح آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ہیومن رائٹس کے مقدمے پر جو نیوز کلپنگ  کی بنیاد بنا، غیر معمولی لوڈشیڈنگ ، قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ اوربجلی کی پیداوار کے لیے گیس کی عدم فراہمی و دیگر شکایات کے بارے میں عدالت نے حکومت کو گیس کی فراہمی  وغیرہ کے احکامات جاری کیے ۔ مولاناعبدالحق بلوچ و دیگر بنام بلو چستان حکومت بذریعہ انڈسٹریز و منرل ڈیوی ویلپمنٹ و دیگر کے مقدمے میں عدالت نے ریکو ڈک کاتانبہ اور سونے کے ذخائر میں صوبائی ترقیاتی اتھارٹی اور کمپنی کے جائنٹ وینچر ایکس پلوریشن کا جائزہ لیااور اس میں موجود بے قاعدگیوں اور غیر قانونیت کو طشت از بام کیا ،اس کوبنیادی حقوق کے متصادم قرار دیا اور ایکس پلوریشن لائسنس کو بھی ختم کر دیا ائیر مارشل اصغر خان بنام جنرل (ر ) مرزا اسلم بیگ ودیگر کے مقدمے میں بھی جس میں آرمی چیف ا ورا نٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے ایوان صدر میں ایک الیکشن سیل قائم کیا گیا ،ان کی مالی سپورٹ کی گئی تا کہ الیکشن میں اپنی مرضی کے امیداروں کو کامیاب بنایا جا سکے ، عدالت نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کو رجسٹر ڈکیا، اس لیے کہ اس میں بنیادی حقوق اور عوامی اہمیت کے سوالات موجود تھے۔ عدالت نے بلوچستان کی امن و مان کی صورت حال کے معاملے پر بھی اپنا اختیار استعمال کیا ، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگر میں فیصلہ دیا کہ آئینی پٹیشن آئین کی دفعہ184(3) کے تحت قابل سماعت اور اس پر ڈیکلریشن بھی پاس کیا گیا، عدالت نے محمد یاسین بنام سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلا م آباد و دیگر میں بھی اوگرا کے چیئر مین کی تعیناتی پر سوال ا ٹھایا تھا ، اس معاملے میں بھی عدالت آئین کے آرٹیکل 184(3)  کے تحت اپنے اختیار کو برئوے کار لائی تھی، اس لیے کہ اس طرح کی تعیناتیاں بھی بنیادی حقوق کے تناظر میں عوامی اہمیت کی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ،، عدالت نے پبلک پروکرومنٹ رولز 2004کی خلاف ورزی اورعوام کی وسیع پیمانے پر دولت کی خور بردکے معاملے کا بھی سوموٹونوٹس لیاعدالت نے قرار دیا کہ کریمنل معاملات میں فعالیت ناگزیر ہے ، ان میں سپریم کورٹ کی مداخلت لازمی ہے اس لیے کہ اس معاملے کو متعلقہ حاکم کے حوالے کر دیا گیا تو انہوں نے دو سال تک اس بارے میں کچھ نہیں کیا، وہ خاموش تماشائی بنے رہے ، اوردیکھتے ہی دیکھتے مجرم بیرون ملک فرار ہو گئے۔ آئین کے آرٹیکل 199اور184(3) کے تحت یہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے کہ اس طرح کی سنگین غفلت کا نوٹس لے جمہوری وطن پارٹی  ودیگرا ور فیڈریشن آف پاکستان و دیگرکے مقدمے میں بھی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184( 3) کے تحت اپنے اختیارات کو استعما ل کیا۔حج کرپشن کے سوموٹو نوٹس میں بھی سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 199اور184( ۳ ) کے تحت اختیارات کو استعمال کیا ، ریاست کے کسی بھی ایگزیکٹو یا انتظامیہ کا کوئی بھی اقدام عدالت کے لیے کھلا ہے کہ وہ اس کی چھان بین کرے ، عدالت نے بینک آف پنجاب دیگر بنام حارث سٹیل انڈسٹریز میں عوام کے ساتھ سنگین مالی فراڈ کا بھی آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت مقدمے کی سماعت کی ،اس میں ثابت ہوا کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والا مقدمہ پاکستان کی بینکوں کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے ، اس میں دس لاکھ افراد کے گیارہ بلین روپے کو لوٹا گیا عدالت کے سوموٹو نوٹس میں عدالت نے یہ قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3)  کے تحت سپریم کورٹ حکومتی معاملات پر کنٹرول یا ان میںمداخلت نہیں کرنا چاہتی بلکہ یہ آئین کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں محض اپنا آئینی حق استعمال کرتی ہے۔ مولوی اقبال حیدر بنام سی ڈی اے، جس میں ایک پبلک پارک کو کمرشل پارک میں تبدیل کرنے کامعاملہ تھا، اس میں بھی عوامی اہمیت کا سوال تھا۔یہ بھی عدالت میں سنا گیا۔ جاوید جبار ودیگر چودہ بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگر میں بھی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 184 (  3) کے تحت کوڈ آٖف کنڈکٹ آف جنرل الیکشن آرڈر2002،آرٹیکل 8اے اے سینیٹ کے ارکان کی نا اہلی کا فیصلہ دیا، سردار فاروق احمد لغاری و دیگر بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگر میں بھی آئین کے آرٹیکل 184( ۳ ) کے تحت عدالت نے مقدمے کی سماعت کی ۔آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت  عدالت نے وسیع پیمانے پر اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ڈیکلریشن اور احکامات جاری کیے، کیا موجودہ مقدمے کے حقائق اور حالات میں اس کی ضرورت ہے ،اس میں اس قدر موادا ور شواہد موجود ہیں کہ اس کی بھی آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت کی سما عت کی جاسکے ۔3.۔ مذکورہ تینوں آئینی پٹیشنز میں میاں محمد نواز شریف وزیرا عظم پاکستان ،جو کہ قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں ، جواب دہ ہیں ، ان آئینی پٹیشنز میں مرکزی الزام لندن کے چار فلیٹوں کی ملکیت کے بارے میں ہے ، ان میں الزام ہے کہ فلیٹس نیس کول اور نیلسن انٹر پرائزز نامی  آف شور کمپنیوں کے نام پر خریدے گئے ، اس کے لیے ذیل کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔الف۔فلیٹ نمبر 17، ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین لندن، جون 1992میں نیس کول ورجن آئی لینڈ کمپنی کے نام پرر جسٹرڈ کیا گیا۔ب۔ فلیٹ نمبر16اور16اے،ا یون فیلڈ ہائوس، پارک لین  لندن 31جولائی1995کو نیلسن برٹش ورجن آئی لینڈ کمپنی کے نام پر رجسٹرڈ ہوئے ۔پ۔ فلیٹ نمبر17اے ، ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین لندن ، نیس کول برٹش ورجن آئی لینڈ کمپنی کے نام پر23جولائی1996 کو رجسٹرڈ کیا گیا۔یہ کمپنیاں حسین نواز شریف کی ملکیت ہیں ، جو کہ ان جائیدادوں کی خریداری کے وقت بچے تھے ، یہ نواز شریف کی ملکیت ہیں اور وہ ان جائیدادوں کے بارے میں اپنے انکم ٹیکس میں ڈیکلریشن دینےمیں کلی طور پر ناکام ثابت ہوئے،ا سی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈیکلریشن میں انہوں نے اس کا ذکر تک نہیں کیا، مزید کہا گیا کہ وزیرا عظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں دو تقایرر کیں ایک 4اپریل2016اور ودسری 16مئی2016 کو،ان دونوں تقریر وںمیں میاں نواز شریف نے ان جائیدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے لندن فلیٹس کی ملکیت کو دو ٹوک ا نداز میں تسلیم کیا، لیکن وہ مکمل طور پر یہ ثابت کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں کہ یہ جائیدادوںکے لیے فنڈزکہاں سے آئے ، انہوں نے الزام لگا یا ہے کہ نواز شریف نے دونوں تقریر وںمیں قومی اسمبلی کے فلور پرقوم سے جھوٹ بولا ہے، انہوں نے یہ کہا ہے کہ لندن کے چاروں فلیٹس انہوں نے گلف سٹیل ملز، دوبئی اور العزیزہ سٹیل ملز جدہ کی فروخت سے ملنے والے پیسوں سے خریدےہیں، ان میں سے گلف سٹیل ملز1980میں جبکہ ا لعزیزہ سٹیل ملز 2005میں فروخت کی گئی ، جب کہ لندن کے فلیٹس 1992اور1996میں خریدےگئے ، نواز شریف نے ان الزامات کا جواب دیا ہے ۔۔آئینی پٹیشن 29میں انہوں نے انہوں نے عدالت میں جو بیان پیش کیا اس میں انہوں نے لندن کے چاروں فلیٹس کی ملکیت ( قانونی یا فائدہ اٹھانے ) سے انکار کیا ہے انہوں نے کسی بھی آف شور کمپنی کی ملکیت (قانونی یا فائدہ اٹھانے ) سے بھی انکار کیا ہےانہوں نے یہ بھی موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا نام پانامہ پیپرز میں شامل ہی نہیں اور نہ ہی پیپرز میں ان پر کوئی الزام لگایا گیا ہے ، انہوں نے کہا کہ وہ باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں اور رائج الوقت قانون کے تحت وہ اپنی آمدن ، اثاثوں او ر دیگر ذمہ داریوں کو بھی ظاہر کرتے رہےہیں ، انہوں نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ اپنی اور اپنی اہلیہ کے تما م آمدن، اثاثے اور ذمہ داریاں انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور2013کے الیکشن کے نومی نیشن پیپرز میں ظاہر کی ہیں ،ا ن کا کوئی بھی بچہ ان کا محتاج، ماتحت یا کفالت میں نہیں ، اس لیے آئین کے آرٹیکل 62اور63 کے تقاضے وہ پورے کرتے ہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ پوسٹ الیکشن ڈس کوالی فیکیشن ،آئین کے آرٹیکل 63ٹو کے تحت ان کا معاملہ سپیکر نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا، پی ٹی آئی کے رکن نے ا س طرح کی کوئی پٹیشن دائر کی نہ ہی الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کوئی ریفرنس دائر کیا، ایک بار اگر کوئی الیکشن میں کامیاب ہو جائے ، رکن پارلیمنٹ بن جائے تو اس کےالیکشن کو صرف آئین کے آرٹیکل 22 5 کےتحت صرف الیکشن پٹیشن کے تحت ہی چیلنج کیا جا سکتا ہے ، انہوں نے پٹیشن کے الزامات کو رد کر دیا۔6۔  پٹیشنر کی طرف سے عالم فاضل اے ایس سی سید نعیم بخاری، نے جو آئینی پٹیشن دائر کی اس میں انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹوو جرنلسٹس کے پانامہ پیپرز کے علاوہ مریم صفدر ، حسین نواز ،حسن نوازا ور خود نواز شریف نے اپنی دو تقاریر میں بابنگ دہل  کہا کہ لندن فلیٹس کے وہ مالک ہیں ، وہ ان کے زیر استعمال ہیں اور اسے نواز شریف اور ان کا خاندان 1992سے استعمال کر رہا ہے۔ مگر میاں نوازشریف نے بذات خود لندن کے چار فلیٹس کے بارے میں اصل حقائق ظاہرنہیں کئے اس کے بجائے انہوں نے 5اپریل 2016ء کو قوم سے اپنے خطاب میں اور پھر 16 مئی 2016ء کو قومی اسمبلی کے فلور پرخود اس کی تردید کی۔ اب جبکہ وہ لندن کے ان چار فلیٹس کی ملکیت کے حقائق تسلیم کررہے ہیں جب عدالت نے انہیں اس ملکیت کے بارے میں ان کے خلاف الزامات کا جواب دینے کے لئے طلب کیا تو انہوں نے واضح طور پراس کی تردید کا راستہ اپنایا۔میاں نوازشریف کا ایسا طرز عمل جو نہ صرف پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک رکن ہیں بلکہ موجودہ وزیراعظم بھی ہیں، ایسے عوامی عہدہ کے لئے ناموں بھی ہے اور یہ بات کو بھی تقویت پہنچاتا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے حوالے سے دیانتدار اورامین نہیں ہیں اسی مناسبت سے انہیں اس عدالت کی طرف سے عہدے سے برطرف قرار دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے قرار دیا ہے کہ یہ پاکستانی عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے ارکان قومی اسمبلی اور لندن کے چار فلیٹس کے بارے میں وزیراعظم کے بارے میں اصل حقائق جانیں جو بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے انتہائی عوامی اہمیت کا سوال ہے۔7۔  شیخ رشیدبھی اپنی آئینی درخواست نمبر 30میں خود کو عدالت میں پیش کررہے ہیں، میسرزتوفیق آصف، فاضل اے ایس سی اور شیخ احسن الدین، درخواست گزار کے لئے فاضل اے ایس سی آئینی درخواست نمبر 3 نے عدالت کے سامنے پیش کئے گئے مواد کا حوالہ دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ جو مواد پیش کیا گیا ہے وہ اس بات کے لئے کافی ہے کہ میاں نوازشریف آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت صادق اور امین نہیں ہیں اور اپنے عہدہ سے برطرف کئے جانے کے سزاوار ہیں۔8۔ دوسری طرف میاں نوازشریف کے سینئر قونصل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں میاں نوازشریف کی طرف سے جو بیانات آئے، خود کو ان تک محدود کرلیا جس میں لندن کے چار فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کی تردید کی گئی تھی۔ باقی تین پرائیویٹ مدعا علیہان کے فاضل سینئر اے ایس سی مسٹر شاہد حامد اورفاضل اے ایس سی مسٹر سلمان اکرم راجہ  نے اپنے دلائل میں کہا کہ میاں محمد نوازشریف کا لندن کے چار فلیٹس اور دو آف شور کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فاضل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے تسلیم کیا کہ عدالت کو پٹیشنرکی آئینی درخواستوں پر حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے مگر یہ بھی کہا کہ ایسے اختیارات کو استعمال میں نہیں لایا جانا چاہئے کیونکہ اس سے ٹریبونل میں زیرالتوا کارروائی اسی طرح دیگر پارلیمینٹرینز کے الیکشنز پراثر پڑنے کا امکان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔9۔ ریکارڈ پر تسلیم شدہ حقائق یہ ہیں کہ 1972ء میں اتفاق فائونڈری کو قومیائے جانے کے بعد یہ خود میاں محمد نوازشریف کا کیس ہے کہ ان کے والد میاں محمد شریف دبئی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے گلف سٹیل ملز قائم کی اور 1978ء میں سہہ فریقی شیئر سیل کنٹریکٹ کے ذریعے گلف سٹیل ملز کے 75 فیصد شیئرزفروخت کئے جس میں پہلا فریق متحدہ عرب امارات کا شہری محمد عبداللہ قائد اہلی خریدار تھا، دوسرا فریق محمد طارق شفیع (پاکستانی باشندہ) بیچنے والا تھا جبکہ تیسرا فریق بنک آف کریکٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل، ڈیرہ دبئی دوسرے فریق کا قرض خواہ تھا۔ کنٹریکٹ کے تحت میاں طارق شفیع نے بطور مالک گلف سٹیل ملز پہلے فریق کو 75 فیصد حصص کے ساتھ (2کروڑ 13لاکھ 75ہزاردرہم) فروخت کی۔ اس کنٹریکٹ کی رو سے یہ تمام رقم تیسرے فریق یعنی بی سی سی آئی کو گلف سٹیل ملز پر واجب الادا قرض کی مد میں ادا کی گئی۔ گلف سٹیل ملز کا باقی قرضہ 62لاکھ 89ہزار پانچ سو89درہم،دبئی الیکٹریسٹی کمپنی کا 28لاکھ 52ہزار چھ سو 59درہم قرض تھا جبکہ دبئی واٹر سپلائی کی بھی محمد طارق شفیع پر رقم واجب الادا تھی۔ گلف سٹیل ملزکا نام تبدیل کرکے اہلی سٹیل ملز کمپنی رکھ دیا گیا جبکہ پارٹنرشپ ایگریمنٹ 1978ء میں کیا گیا جہاں اہلی سٹیل ملز کمپنی 2کروڑ85لاکھ درہم کے سرمائے سے قائم کی گئی جس میں 75فیصد شیئرز محمد عبداللہ قائد اہلی جبکہ بقیہ 25 فیصد حصص محمد طارق شفیع کے تھے۔ اہلی سٹیل ملز کمپنی میں محمد طارق شفیع کے 25 فیصد یا 71لاکھ 25ہزار درہم تھے۔ اس پر گلف سٹیل ملز کا قرضہ جو بی سی سی آئی، دبئی الیکٹریسٹی کمپنی اور دبئی واٹر سپلائی کو دینا تھا، واجب الادا تھا۔ بظاہر جہاں اہلی سٹیل ملز کمپنی میں گلف سٹیل ملز اور محمد طارق شفیع کے قرضے ایک ساتھ تھے تو ایسے میں محمد طارق شفیع کی رقم صفر ہو جائے گی۔ تاہم اہلی سٹیل ملز کمپنی کو محمد طارق شفیع نے محمد عبداللہ قائد اہلی کو 14 اپریل 1980ء کومعاہدہ کے تحت 25فیصد شیئرز فروخت کئے۔ مبینہ طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اس سے 12ملین درہم جمع ہوئے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ رقم 15مئی 1980ء سے چھ ماہ کی قسطوں میں ادا کی گئی۔ یہ واقعی ایک حیران کن اور تقریباً ایک معمہ ہے کہ پہلی بار1978ء میں 25 فیصد شیئرز کے 71لاکھ 25ہزار درہم کی قدر اب ایک کروڑ 20 درہم ہوگئی۔ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں جس میں یہ ظاہر ہوسکے کہ اہلی سٹیل ملزکمپنی کے سرمائے کی ویلیو بڑھ گئی تھی مزید برآں محمد طارق شفیع نے گلف سٹیل ملز کا جو قرضہ لیا ہوا تھا اس کا کیا بنا؟حسین نواز شریف نے 7 مارچ 2016ء کو ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’کل تک‘‘ میں اپنے انٹرویومیں کہا تھا کہ میاں محمد شریف جب جاتی عمرہ سے آئے تو ان کے پاس ایک پائی تک نہ تھی حسین نوازشریف جب خود سعودی عرب گئے تو ان کے پاس زیادہ رقم نہیں تھی مگر فنڈز کے دو ذرائع تھے۔ ایک یہ کہ غیرملکوں میں مقیم دوستوں اور سعودی بنکوں سے قرضہ لیا اور ایک چھوٹی سی مل قائم کی اس کے لئے انہوں نے خود بہت کم قیمت پراہلی سٹیل ملز سے سکریپ خریدا کیونکہ ملزکے مالک کا خیال تھا کہ یہ کبھی بھی فروخت نہیں کیا جاسکے گا اور یہ سکریپ جدہ میں ری کنڈیشنڈ کیا گیا اصل بات یہ ہے کہ اہلی سٹیل ملز بند پڑی تھی اور سکریپ ہوگئی تھی حقیقت یہ تھی کہ اس کے برعکس انہوں نے اس کے شیئرز میں 25فیصد اضافہ کرکے 12ملین درہم بنا دیئے تھے۔10۔ گلف سٹیل ملز کی ملکیت کا اختتام اور1980ء میں اس کے بقیہ 25 فیصد حصص کی فروخت 21سال کا ایک عارضی وقفہ تھا جب 2001ء میں جدہ میں عزیزیہ سٹیل ملزقائم کی گئی۔ 7 مارچ 2016ء کو حسین نوازشریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ جب وہ سعودی عرب آئے تو ان کے پاس کوئی فنڈز نہیں تھے۔ جب یہ مقدمہ عدالت کے سامنے آیا تو میاں محمد نوازشریف اور ان کی فیملی کے لئے 12ملین درہم کا خزانہ تھا اس خزانے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ قیاسی ہوسکتا ہے وہ قیاسی جس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ 2005ء میں عزیزیہ سٹیل ملز17 ملین ڈالر کے عوض فروخت کردی گئی۔ اس کا اپنا سرمایہ کہاں گیا اور یہ کس طرح ادا کیا گیا اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ یہاں یہ ذکرکرنا بھی برمحل ہوگا کہ بطور حقیقت نوازشریف کے بیٹے حسین نوازشریف یکم مئی 1972ء کو پیدا ہوئے اور بیٹی مریم 28 اکتوبر1973ء کو جبکہ حسن نوازشریف 21 جنوری 1976ء کو پیدا ہوئے۔یہ بات ظاہر ہے کہ جب گلف سٹیل ملزقائم کی گئی تو ان تینوں بچوں میں سے کوئی بڑا نام نہیں تھا۔ جب گلف سٹیل ملز کے 75 فیصد حصص فروخت کئے گئے تو اس وقت حسین نوازشریف دودھ پیتے بچے ہوں گے۔ جب 1980ء میں اس کے بقیہ 25 فیصد حصص بیچے گئے تو اس وقت تینوں بچے کم عمر تھے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ 1992ء میں حسین نوازشریف اورپھر 1993/94ء میں حسن نوازشریف حصول تعلیم لندن گئے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ میاں نوازشریف کے دونوں بیٹے بطور سٹوڈنٹس لندن کے فلیٹس میں رہائش پذیر تھے۔12۔ آئین کے تحت یہ پاکستانی عوام کا بنیادی حق ہے اپنے منتخب کردہ نمائندوں اور وزیراعظم کے کے چار فلیٹس کے بارے میں موقف جان سکیں جس کا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے میڈیا میں بہت چرچا ہوا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم، ہسپانیہ کے وزیر تجارت اور یوکرائن کے وزیراعظم کا نام بھی پانامہ پیپرز لیکس میں آیا ہے۔ ان تمام لوگوں نے پانامہ لیکس میں نام آنے پر اپنے عہدوں سے استعفے دے دیئے تھے۔۔ برطانوی وزیراعظم، رشین فیڈریشن کے صدر جن کا نام پانامہ لیکس میں آیا اپنی پوزیشنز کے بارے میں بتایا اور خود کو اس سے کلیئر کیا۔ دنیا کے کئی دیگرعہدیداروں کے برعکس پانامہ پیپر لیکس کی بنیاد پر معاملات زیر التوا ہیں۔ ایسی بڑی سکینڈلز کی خبروں پر بڑی احتیاط اور سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ لندن کے چار فلیٹس کی ملکیت کے بارے میں اس بات پر مایوسی ہوئی کہ میاں محمد نوازشریف نے عدالت کو کچھ نہیں بتایا جہاں منصفانہ طور پر کسی نتیجہ پر پہنچا جاسکتا تھا کہ میاں محمد نوازشریف کا ان چار فلیٹس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔13۔ اپیل کا اصول یہ ہوتا ہے کہ تحریری بیان شکایت کنندہ کے الزام کے ہر امر کے ساتھ ڈیل کرتا ہے اور جب مدعا علیہ کسی بھی الزام کی تردید کرتا ہے تو اسے گول مول جواب نہیں دینا چاہئے بلکہ شواہد کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہئے اور اگر حقیقت کا انکار جامع نہیں بلکہ گول مول ہے تو حقیقت کو تسلیم کیا جائے گا۔ یہ بہت عام سی بات ہے۔ 16مئی 2016ء کو میاں محمد نوازشریف نے اپنی تقریر میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ لندن کے چار فلیٹس گلف سٹیل ملز اور العزیزیہ سٹیل ملز کی فروخت سے حاصل رقم سے خریدے گئے مگر ہمارے پاس جو مواد جمع کرایا گیا وہ ان چار فلیٹس کی خرید کے ذرائع کے بارے میں ایک دوسری ہی کہانی بیان کررہا تھا۔ قطر کے پرنس التھانی نے اپنے دو پرائیویٹ بیانات میں بتایا کہ لندن کے یہ چار فلیٹس دراصل التھانی فیملی نے خریدے تھے اور یہ کہ نیسکول اور نیلسن کے بیریئر شیئر سرٹیفکیٹس التھانی فیملی کے پاس ہیں۔ اس کی تفصیل نہیں تھی کہ یہ چاروں فلیٹس کس تاریخ کو خریدے گئے، کتنی رقم دی گئی اور کس نے انہیں خریدا تھا۔ کوئی بنک ریکارڈ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ان کی اس کہانی پر ظاہر ہے یقین نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ لندن کے چاروں فلیٹس 1992-3ء سے میاں محمد نوازشریف اور ان فیملی کے قبضے میں رہے ہیں۔ اس پورے عرصے میں یہ اس کرایہ اور دیگر تمام واجبات ادا کرتے رہے ہیں۔ جبکہ لندن کے فلیٹس نوازشریف اور ان کی فیملی کے قبضے میں رہے ہیں نیسکول لمیٹڈ اور نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ کے مینجر/ ایجنٹس تبدیل کردیئے گئے جبکہ ان چاروں فلیٹس کی ملکیت برقراررہی۔ یہ کس نے کیا یہ میاں نوازشریف کی طرف سے اس پر کوئی وضاحت نہیں آئی۔14۔ 1999ء میں لندن کے چاروں فلیٹس کے ساتھ ایک اور واضح حقیقت بھی ہے کہ میاں نوازشریف اور ان کی فیملی کو 5 نومبر 1999ء کو لندن ہائی کورٹ کے جسٹس کوئن کے بنچ ڈویژن نے حکم دیا تھا۔ یہ سوٹ التوفیق کمپنی فارانویسٹمنٹ فنڈز لمیٹڈ نے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ،میاں شہبازشریف، میاں محمد شریف اور میاں محمد عباس شریف  کے خلاف دائر کیا تھا۔ عدالت نے ڈگری کی 34 ملین ڈالر کی ادائیگیاں محفوظ بنانے کے لئے لندن کے ان چار فلیٹس کی حد تک میاں شہبازشریف، میاں محمد شریف اور میاں محمد عباس شریف کو چارج کیا تھا۔ یہ اعتراف کیا گیا کہ التوفیق کمپنی کی ڈگری کے تحت مدعا علیہان کو ڈسچارج کیا گیا اور لندن کے چاروں فلیٹس خالی کردیئے گئے مگر دستیاب ریکارڈ میں 34 ملین ڈالر کی زرمبادلہ یا التوفیق کو ادائیگیاں ظاہر نہیں کی گئیں۔18۔ یہاں یہ مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت آئینی درخواست کی سماعت کررہی تھی، نہ سول کورٹ کی طرح کیس کا ٹرائل کیا نہ ہی ملزم پر فوجداری عدالت کی طرح فوجداری جرم کی سماعت کی۔ اس کے بجائے عدالت نے پیش کئے گئے مواد اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ خالصتاً آئینی قواعد کے مطابق کیا گیا جو آئین کے باب ایک اور دو کے تحت بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا حامل ہے۔
تازہ ترین