• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی وزیراعظم کی نااہلی کیلئے کوشش ناکام

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)چیئرمین عمران خان کی سپریم کورٹ سے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی سے متعلق فوری انصاف کی کوشش ناکام ہوچکی ہےکیوں کہ اس معاملے کو ان کے موقف کے برخلاف کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہےتاکہ مزید تحقیقات کی جاسکے اور اس مقصد کے لیے جوڈیشل کمیشن نہ قائم کیا جائے۔بظاہر، پانچ رکنی بینچ جس کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کررہے تھےاپنا  فیصلہ سنا کر اپناکام مکمل کرچکا ہے۔ایک فیصلہ تین ججوں نے دیا اور دوسرا فیصلہ دو ججوں نے ان سے اختلاف کی بنیاد پر دیا۔فیصلے میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار سےاستدعا کی گئی ہے کہ وہ ایک خصوصی بینچ تشکیل دیںتاکہ اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکےاور الزامات سے متعلق تحقیقات کوبند گلی میں نہ چھوڑا جاسکے۔عمران خان ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ نوازشریف کے بحیثیت وزیر اعظم ہوتے ہوئے شفاف تحقیقات ممکن نہیں ہیں۔تاہم چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جیسا کہ عدالت نے حکم دیا ہےان معاملات کی چھان بین کرے گی، جب کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔جے آئی ٹی میں سول اداروں کے چار نمائندگان جب کہ دو نمائندگان معروف انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ہوں گے۔عمران خان نے ہمیشہ ایف آئی اے، نیب، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ہمیشہ ان اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں پر الزامات عائد کرکے ہدف تنقید بنایا ہے۔تاہم، جے آئی ٹی میں ان اداروں کے عہدیدار ہی ہوں گے۔ان کے علاوہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو بھی ان کے چیف نامزد کریں گے۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل کے علاوہ موجودہ حکومت بھی متعدد مواقعوں پر اس طرح کی کمیٹیاں تشکیل دے چکی ہے تاکہ ہائی پروفائل کیسز جیسا کہ ماڈل ٹائون لاہور کا واقعہ وغیرہ کے لیے تشکیل دی گئی تھیں۔انتظامیہ اس طرح کی جے آئی ٹیز بنانے کے لیے ہمیشہ تیار رہی ہے۔ ان فورمز کو مخصوص کاموں کے لیےخصوصی مینڈیٹ دیا جاتا ہے۔اس کیس سے متعلق بھی عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو کہا ہے کہ وہ ان معاملات پر تحقیقات کرے کہ گلف اسٹیل مل کا قیام کیسے عمل میں آیا، اس کے فروخت کی کیا وجوہات تھیں، اس کے واجبات کے ساتھ کیا ہوا،اس کی فروخت سے جو آمدنی ہوئی اس کا کیا گیا،وہ جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچے، کیا مدعا علیہان حسین اور حسن اپنی عمر کے لحاظ سےنوے کی دہائی کے اوائل میں اس قابل تھے کہ فلیٹوں کی خریداری کرکے اپنی ملکیت میں رکھ سکیں، حماد بن جاثم ال ثانی کے خطوط اچانک سامنے آنافرضی باتیں ہیں یا اس میں کوئی حقیقت ہے۔شیئرز کے ان حصص کو فلیٹوں میں کیسے منتقل کیا گیا،ایم ایس نیلسن انٹرپرائززلمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈکا حقیقی اور بینیفشل آنر کون ہے،ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا قیام کیسے عمل میں آیا،فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ اور دیگر کمپنیوںکے قیام اور ملکیت حاصل کرنے کے لیےحسن کے پاس پیسہ کہاں سے آیا، اس طرح کی کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور حسین نے جو لاکھوں روپےوزیر اعظم کو گفٹ کیےکہاں سے دیئے گئےجو دراصل اس معاملے کی بنیاد ہے اور اس کے جوابات حاصل کرنا ضروری ہے۔لہٰذا اس ضمن میں تفصیلی تحقیقات کی ضرورت ہے۔جی آئی ٹی اس کیس سے متعلق تحقیقات کرے گی اور شواہد جمع کرے گی اگر کسی کو لگے کہ نوازشریف یا ان کے زیرکفالت کوئی بھی یا بےنامی مالکان، جن کی ملکیت میں  یا جس کے پاس اثاثہ جات ہوں یا آمدنی کے معلوم ذرائع سے اس میں غیر متناسب کوئی دلچسپی ہو۔وزیر اعظم، حسین اور حسن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جے آئی ٹی کے سامنے جب اور جیسے ضرورت ہو پیش ہوں۔جے آئی ٹی ان شواہد کا بھی تجزیہ کرے گی جو پہلے ہی ایف آئی اے اور نیب کے پاس موجود ہیںاور وہ لندن فلیٹس کی ملکیت یاحصول سے متعلق ہیںیا دیگر اثاثہ جات، مالی وسائل یا ان کی اصل سے متعلق ہوں۔بینچ کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی حتمی یاسلسلہ وار رپورٹس کی وصولی کے بعد ، جیسا کہ مقدمہ ہے تو وزیر اعظم کی نااہلی کے بارے میں سوچاجائے گا۔اگر ضروری سمجھا گیا کہ اس ضمن میں کوئی حکم نامہ جاری کیا جائے تو نوازشریف یا کسی دوسرے شخص کو طلب کرکے جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے۔
تازہ ترین