• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانامہ لیکس میں سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلےپر مقدمے کے مدعی اور مدعاالیہ دونوں پارٹیاں قانونی سے زیادہ اپنی اپنی سیاسی سوچ کے تحت فتح کا جشن منا رہی ہیں۔ حکومتی حلقے خوش ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی استدعا مسترد کردی گئی اور معاملہ مزید تحقیقات کے لئے سول و عسکری ایجنسیوں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سپرد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سجدہ شکر بجا لائے ہیں۔ دوسری جانب مدعی پارٹیوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ اس بات پر خوش ہیں کہ دو فاضل ججوں نے وزیراعظم کی نااہلی کے حق میں رائے دی ہے جبکہ دوسرے تین نے بھی انہیں بری نہیں کیا بلکہ شریف خاندان کے مالی معاملات کی مزید تحقیقات کا حکم دیا ہے جس کی روشنی میں ان کی نااہلی کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی نے عدالتی فیصلے کو سرے سے مسترد کردیا ہے اور اس کے رہنما سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ردعمل میں ایسے جملے بھی کہے ہیں جو بعض قانونی ماہرین کے مطابق توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ فیصلے کے بعداپوزیشن وزیراعظم سے اخلاقی بنیادوں پر استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے جسے حکمران پارٹی عدالتی فیصلے کے منافی قرار دے رہی ہے، سیاسی موشگافیوں سے قطع نظر حقیقی صورت حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ کیس ختم نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کے لئے 13انتہائی اہم سوالات اٹھائے ہیں جن پر حتمی جواب جے آئی ٹی 60روز کی تحقیقات کے بعد عدالت میں پیش کرے گی اور اس دوران ہونے والی پیش رفت سے ہر پندرہ روز بعد عدالت کو آگاہ بھی کرتی رہے گی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق 13 میں سے زیادہ تر سوالات کا تعلق وزیراعظم کے مرحوم والد میاں محمد شریف سے یا آف شور عملداری کے علاقے سے ہے جہاں کے قوانین بہت سخت ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کو جوابات کے لئے رسائی ہی نہ ملے۔ چار سوالات حسن نواز کے کاروبار سے متعلق ہیں جن کا بالواسطہ تعلق میاں شریف مرحوم یا آف شور کے بند نظام سے ہے، اب یہ تحقیقاتی ٹیم کا کڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ان سوالات کے واضح جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ سوالات سب کے سب مالی معاملات کے بارے میں ہیں عدالت میں سماعت کے دوران بھی یہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور مدعی اور مدعاالیہ پارٹیوں نے جو بھی موقف، شواہد یا دستاویزات پیش کیں عدالت ان سے مطمئن نہیں ہوئی۔ مدعی، اپنے الزامات ثابت کر سکے نہ مدعاالیہ نے تسلی بخش جواب دیئے۔ ان الزامات کی تحقیقات جس جے آئی ٹی کے ذمے کی گئی ہے وہ ایف آئی اے، قومی احتساب بیورو، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن، انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں پر مشتمل ہو گی۔ یہ نمائندے وائٹ کالر کرائم، منی لانڈرنگ اور متعلقہ امور کے تجربے کے حامل ہوں گے عسکری اداروں کے نمائندوں کی شمولیت تحقیقات کو آزادانہ غیر جانبدارانہ اور شفاف بنانے میں مدد دے گی ملک کے چیف ایگزیکٹو اور ان کے خاندان کے مالی معاملات کی چھان بین کے لئے اس سے زیادہ موثر کوئی ٹیم نہیں ہو سکتی تھی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں انہیں اوران کے بیٹوں کو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو کر اپنے خلاف الزامات کو غلط ثابت کرنا ہو گا۔ تاہم مخالف پارٹیوں کے لئے بھی جشن منانے کا کوئی جواز نہیں۔ معاملہ اب بھی عدالت میں ہے اور عدالت جے آئی ٹی کے تحت ہونے والی پیش رفت کی خود نگرانی کرے گی۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ عدالتی فیصلے کے احترام کے ساتھ سیاسی مہم جوئی میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور حتمی فیصلے کا انتظار کریں۔ اقتدار کی لڑائی میں قوم کے اتحاد و یک جہتی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے ملک موجودہ اندرونی اور بیرونی خطرات کی موجودگی میں انتشار اور افتراق کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

.
تازہ ترین