• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 ’’فیصلہ ‘‘ کیا ہے ؟ فائن آرٹس پر فارم کیا گیا ہے اسی لئے فیصلہ سے ایک دن پہلے لکھا تھا ...’’تھا جس کا انتظار وہ ’’شہکار‘‘ آ گیا ‘‘ اہل قفس بھی خوش ہوئے، راضی ہوا صیاد بھی اور چمن بھی خوش ہے ۔ دونوں مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ لاٹھی بھی بچ گئی ، سانپ بھی پتلی گلی سے ہو کر نکل گیا۔ اکثریت کی کیفیت اس ’’معزز‘‘ جیسی ہے جو لڈیاں ڈالتا ہوا آ رہا تھا۔ لوگوںنے پوچھا ’’ کیا ہوا ؟‘‘ تو بولا ’’پچھلے چوک میں ابا جی ذلیل ہو رہے ہیں میں سرخرو عزت بچا کر نکل آیا ہوں‘‘کمال ہو گیا بھئی کمال، عوام خوش، عدلیہ خوش، عمران خوش، شریف برادران خوش حالانکہ یہ یونانی دیو مالائوں پہ بھاری ’’پاکستانی دیو مالا‘‘ کی قسط ہے .....پہلی قسط!ہوا کیا ہے ؟میرے نزدیک عدالتی سرجنوں نے ن لیگ کے بھرے ہوئے پیٹ میں رسولی کی نشاندہی کر دی ہے ۔پانچ میں سے دو سینئر ترین سرجنوں نے دو ٹوک انداز میں رسولی کو MALIGNANTقرار دیدیا ہے اور باقی تین سرجنوں نے احتیاطاً ’’مریض‘‘ کو لیبارٹری جاکر مزید تصدیق کا حکم دیا ہے کہ MALIGNANCY کس درجہ پر پہنچی ہوئی ہے ۔مریض کے رشتہ دار بجا طور پر خوش ہیں کہ شاید ’’لیب‘‘ سے کسی معجزہ کی خبر آئے کہ مریض کے عزیز واقارب کی نفسیات یہی ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو انہیں مریض کی موت پر بھی اس کے مر جانے کا یقین نہیں آتا ۔ دوسری طرف ’’شریکا‘‘ اس بات پر بغلیں بجانے میں حق بجانب ہے کہ سینئر سرجن تو کینسر کا اعلان کر چکے، رہی سہی کسر 60دن کے اندر اندر اگلی رپورٹ طے کر دے گی۔صورتحال سسپنس سے مزید بھرگئی ہے عوام کے حوالہ سے صحیح معنوں میں وہ محاورہ یاد آتا ہے ’’ آئوٹ آف دی فائر ان ٹو دی فرائینگ پین‘‘ عوام آسمان سے گر کر لمبی کھجور میں اٹک گئے ہیں ۔ ٹرک تبدیل ہو گیا ہے لیکن بتی کے پیچھے بھاگتے رہنے کا عمل تبدیل نہیں ہوا تو یقیناً ایسے فیصلے ہی ’’شہکار‘‘ کہلاتے ہیں اور صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں ۔ غالباً ریڈیو جرمنی نے کہا تھا کہ فیصلہ بلیک اینڈ وائٹ نہیں ’’گرے ‘‘ ہو گا سو ہم جیسے گیٹو گرے اب اس پر مغز کھپایا کریں گے کہ یہ کتنا ’’گرے‘‘ ہے ؟ لائٹ گرے یا ڈارک گرے ۔رہ گیا اخلاقی جواز تو اخلاقیات کی تو دم میں نمدا اور ایسی کی تیسی ۔ راجپوت کہا کرتے تھے ’’جان جائے پر بچن نہ جائے ‘‘صرف راج یہ کہتا ہے کہ ’’وقار جائے پراقتدار نہ جائے ‘‘ سوچتا ہوں کہ کسی مہذب ملک میں ایسا فیصلہ آیا ہوتا تو وہاں کا وزیراعظم کیا کرتا۔ وہ کون بیوقوف تھا جو ’’بریگزٹ ‘‘ پر عوام کی رائے جان کر پائے حقارت سے وزارت عظمیٰ کو لات مار کر باوقار انداز میں گھر چلا گیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’جے آئی ٹی ‘‘ کی لیبارٹری سے کیا رپورٹ آتی ہے ۔سول ایجنسیوں کی ساکھ تو سامنے کی بات ہے، وہ کیا اور ان کی تحقیقات کیا، ان کی اوقات کیا البتہ ’’آئی ایس آئی ‘‘ اور ’’ایم آئی ‘‘ کی عوام عزت کرتے ہیں، انہی سے امیدیں وابستہ رکھیں گے اور تب تک اقبال کا یہ مصرعہ ماضی کی طرح عوام کو مسلسل ہانٹ کرتا رہے گا۔’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘لیکن دو مہینے بعد بہار تو بہرحال نہیں، مون سون یعنی برسات کی امید ہی رکھی جا سکتی ہے ۔تب تک غیور باشعور عوام ’’چھکو‘‘ پر بیٹھ کر جشن لوڈشیڈنگ منائیں۔اس تاریخی فیصلے پر اور کسی کا کچھ بنا بگڑا یا نہیں لیکن مٹھائی فروشوں کی چاندی ضرور ہوگئی جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ اگر ضمیر فروشوں کی ہمیشہ ہی چاندی رہتی ہے تو ایک آدھ بار مٹھائی فروشوں کی دیہاڑی لگ گئی تو اس میں کیا برائی ؟ میرا خیال ہے گزشتہ کئی سالوں میں دوسری بار مٹھائی فروشوں کو یہ سنہری موقعہ ملا۔پہلے بارہ اکتوبر 99ء کو پرویز مشرف کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم ہوئی تھیں یا اب 20اپریل کو دونوں پارٹیوں نے پارٹی کی ہے ۔جہاں تک تعلق ہے عمران خان، آصف زرداری، سراج الحق اور چودھری شجاعت حسین کے اس مطالبہ کا کہ حکومت اخلاقی ساکھ کھو چکی نواز شریف استعفیٰ دیں تو ان جمہوری برادران سے میرا سوال یہ ہے کہ ان کی ساکھ تھی کہاں جو کھو چکی ؟ راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے ۔آپ لوگ چیل کے گھونسلے سے ماس اور عریانی سے لباس مانگ رہے ہو جو نہ پہلے ملا تھا نہ اب ملے گا۔جو لوگ دو سینئر ترین ججوں کے اس فیصلے پر جشن منا رہے ہیں کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے ..... ان کی ذہنیت، ہیئت، ساخت، بنت سمجھ نہیں آ رہی ؟ یہ تو عمران خان جیسا مرد میدان تھا جو گھسیٹ کر انہیں یہاں تک لے آیا ورنہ یہ نوبت بھی کبھی نہ آتی ۔اللہ توفیق دے تو مل کر نکلو اور فائنل فیصلے تک ہر قسم کی جدوجہد جاری رکھو ورنہ’’یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے ‘‘۔

.
تازہ ترین