• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخرکار بیس اپریل کی دوپہر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس میں محفوظ کئے گئے فیصلے کو سنا دیا۔ تین۔ دو کی اکثریت سے دیئے گئے اس فیصلے کو سننے کے بعد جہاں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے اسے اپنے لیڈر کی کامیابی قرار دیا وہیں پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس فیصلے کو اپنے موقف کی حمایت قرار دیا۔ پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو ابھی پوری طرح پڑھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن معزز جج صاحبان کی جانب سے دیئے گئے فیصلے میں ابھی تک جو چیزیں نظر آئی ہیں وہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
سب سے اہم جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کی جانب سے دیا جانے والا اختلافی فیصلہ ہے۔ دونوں معزز جج صاحبان کی نظر میں چونکہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے پارلیمنٹ کے فلور پر کی جانے والی تقریر میں غلط بیانی سے کام لیا اور پاکستان کے عوام سے اپنے خطاب میں بھی سچائی کے برعکس باتیں کیں اس لئے وہ اب پاکستان کے آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت رکن قومی اسمبلی رہنے کے اہل نہیں رہے اور جب وہ قومی اسمبلی کے ممبر بننے کے اہل نہیں رہے تو وہ وزیر اعظم کے منصب پر کیسے برا جمان رہ سکتے ہیں؟ معزز جج صاحبان نے نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جواں سال طالب علم مہنگے فلیٹوں کے مالک کیسے بن گئے؟
اختلافی نوٹ لکھنے والے دونوں معزز جج صاحبان کی نظر میں آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وزیراعظم کی اہلیت کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے کورٹ کے دائرہ اختیار کے بارے میں وقتاً فوقتاً اٹھائے جانے والے سوالات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جج صاحبان کی نظر میں جائیدادوں کی ملکیت کے بارے میں موزوں ثبوت فراہم نہ کر پانے، قطر، سعودی عرب اور دبئی کے کاروبار کے دستاویزی ثبوتوں کی عدم موجودگی میں وزیر اعظم پاکستان کو بطور ممبر ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔
جسٹس عظمت سعید، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجاز الحسن نے مسئلے کو ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے پاس بھیجنے کا فیصلہ سناتے ہوئے متعلقہ اداروں کو سات دن کے اندر اپنے محکموں سے ایماندار افسران کو اس ٹیم کا حصہ بننے کے لئے بھیجنے کا بھی کہا ہے۔ اس ٹیم کو ساٹھ روز کے اندر اس بات کا تعین کرنا ہے کہ کیا وزیر اعظم کی جانب سے دیئے گئے ثبوت ان کی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں؟ معزز جج صاحبان نے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں کو اس ٹیم کے روبرو پیش ہونے کا حکم بھی دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی ایک اسپیشل بنچ بنانے کے لئے درخواست کر دی ہے۔ یہ بنچ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے کام کی نگرانی کرے گا۔ ٹیم کو ہر دو ہفتہ بعد اس بنچ کو اپنی کارروائی کے بارے میں آگاہ کرنا ہو گا۔ اس ٹیم کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ کی روشنی میں اس بات کا تعین ہو گا کہ کیا وزیر اعظم اپنے عہدے پر رہنے کے اہل ہیں یا نہیں۔
اس فیصلے سے پاکستان مسلم لیگ اور اس کی قیادت کے لئے خوشی کی خبر بھی ہے اور خوفزدہ ہونے کے لئے مواد بھی۔ اگرچہ موجودہ فیصلے کے بعد یہ وزیر اعظم کی فتح ہے کہ وہ اپنی نشست پر موجود ہیں لیکن خطرہ ابھی پوری طرح سے ٹلا نہیں ہے۔ ابھی بھی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی تلوار ان کے سر پر موجود ہے ہاں مگر یہ ضرور ہوا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو اب بریتھنگ اسپیس مل گئی ہے۔ شاید اسی خوشی میں مسلم لیگ ن کے ورکرز اور لیڈران نے ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم کی ہیں۔
فیصلے میں وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی کوئی واضح ہدایات نہیں دی گئیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ان پر اپنے والد کی کفالت میں ہونے اور فلیٹ کی ملکیت کے بارے میں جو دعوے کئے گئے تھے ان کو سپریم کورٹ کے ججز نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔یہ بات مسلم لیگ ن کے ان حلقوں کے لئے ایک بڑی خوشخبری سے کم نہیں ہے جو انہیں مستقبل میں نواز شریف کے متبادل کے طور پر تصور کرتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ یا ہدایت جاری کر دی جاتی تو شاید ان کے متوقع سیاسی کیریئر کے لئے کافی نقصان دہ ہوتا۔
پاناما کیس کے فیصلے کا سب سے زیادہ نقصان ان سیاسی قوتوں کو ہوا ہے جو اپنے سیاسی مستقبل کی تمام امیدیں پاناما کیس کے فیصلے سے لگا بیٹھی تھیں۔ان کے نزدیک عدالت کی جانب سے وزیراعظم کو نا اہل قرار دینے کے بعد جب مسلم لیگ ن کشمکش کی صورتحال کا شکار ہوتی وہ اسے سیاسی میدان میں بآسانی شکست دے سکتے تھے، لیکن اب کم از کم آئندہ آنے والے فیصلے تک انہیں انتظار کرنا پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کو موجودہ عدالتی فیصلے سے وہ کامیابی نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہی تھی، لیکن دو جج صاحبان کی جانب سے لکھے جانے والے اختلافی فیصلے نے عمران خان اور ان کی پارٹی کو اگلے ساٹھ دنوں کے لئے ایک نیا حوصلہ ضرور دے دیا ہے۔عمران خان نے تو وزیراعظم سے اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ وہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر جناب آصف علی زرداری صاحب نے بھی عدالتی فیصلے پر عدم اعتماد کا اعلان کر دیا ہے۔زرداری صاحب اور پاکستان پیپلز پارٹی اس بات پر بھی بہت نالاں دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے وزیراعظم کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں گھر بھیج دیا گیا لیکن وزیراعظم کے کیس میں دو ججز کی جانب سے سخت الفاظ میں لکھے جانے والے اختلافی فیصلوں کی موجودگی میں بھی نواز شریف کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔
پاناما کے اس معرکہ میں وزیراعظم نواز شریف ضرور فتح سے ہمکنار ہوئے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں انہیں ممکنہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیا وہ آنے والے انتخابات تک پاناما کیس کے چنگل سے خود کو آزاد کر پائیں گے یہ ایک ایسا سوال ہے جو آنے والے دنوں میں وزیراعظم کے سر پر منڈلاتا رہے گا۔ عمران خان اور اپوزیشن کے دیگر لیڈران اس ایشو کو جاری رکھیں گے اور وزیراعظم پر دبائو بنائے رکھیں گے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہوں گے کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے دونوں جج صاحبان سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔ ایسے میں اگر مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات جیت بھی جائے تب بھی اسی عدلیہ کی جانب سے ایک خوف کا احساس ہوتا رہے گا۔ آنے والے دنوں میں موسم کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں بھی کافی گرمی ہونے کی توقع ہے۔

.
تازہ ترین