ساڑھے تین سال بعد وزیرستان میں داخل ہونے کی اجازت ملی تھی اور مجھے تین دن میں تین سال کی پیاس بجھانی تھی ، اس لئے آرام کی فکر کی اور نہ خوراک کی ۔ 17 اپریل کو پشاور سے صبح سویرے روانہ ہوا۔ رات گئے تک شمالی وزیرستان میں اپنے تجسس کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ اگلا دن آدھا ہیلی کاپٹر میں گزرا اور پھر سڑک کے راستے ہی جنوبی وزیرستان کے مرکز وانا پہنچا ۔ 19اپریل کی صبح پہلے وانا میں بھرپور مصروفیت رہی ۔ پھر سڑک کے راستے افغان بارڈر انگور اڈا تک گیا ۔ پھر سڑک ہی کے راستے واپس اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا اور صبح چار بجے گھر پہنچا۔(زندگی رہی تو اگلے کالموں اور ٹی وی پروگرام میں آپ سفر کے مشاہدات ملاحظہ کرلیں گے)۔ یوں صبح آٹھ بجے سے لے کر اگلی صبح چار بجے تک مسلسل سفر اور وہ بھی پہاڑوں اور دشتوں کا سفر کرتا رہا ۔ تھکاوٹ سے بدن کی ہر ہڈی درد کررہی تھی اور کم خوابی کی وجہ سے ذہن مائوف ہورہا تھا لیکن پانامہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری تھکاوٹ دور ہوگئی ۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ ۔ میں نے پانامہ کے ڈرامے پر اپنا یا قوم کا وقت ضائع نہیں کیا تھا ۔ عدالت میں سماعت کے آغاز کے بعد کبھی اس موضوع پر ٹی وی پروگرام کیا اور نہ کبھی عدالت جاکر اپنا وقت ضائع کیا۔ اس بات پر افسوس ضرور ہوتا رہا کہ عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید وغیرہ کس بے دردی کے ساتھ اپنا ، قوم کا اور عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں یا پھر پانامہ کی وجہ سے کس طرح پاکستان کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹ رہی ہے اور میڈیا میں صرف اسی ڈرامہ بازی کا غلغلہ رہا لیکن خوشی اس بات کی ہوئی کہ جو اندازہ لگایا تھا ، وہ درست ثابت ہوا۔ میں سوچتا رہا کہ اس پہاڑ کو جتنا بھی کھوداجائے اس سے چوہا ہی نکلے گا اور ایسا ہی ہوا ۔ اسی طرح میرا یقین ہے کہ نوازشریف ، زرداری اور عمران خان ایک ہی سکے کے تین رخ ہیں اور الحمدللہ وہ مزید ثابت ہوگیا کہ ایسا ہی ہے ۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ مولانا فضل الرحمان ، سراج الحق اور محمود خان اچکزئی وغیرہ نان ایشوز کی سیاست کے ماہر اور کسی نہ کسی بڑے سیاسی لیڈر کے آلہ کار ہی رہتے ہیں مزید ثابت ہوگیا کہ ایسا ہی ہے ۔ اس وقت اگر جے یو آئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اگر مسلم لیگ (ن) کے دم چھلے ہیں تو سراج الحق صاحب نے جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کا دم چھلا بنا دیا ہے اور وہ جماعت اسلامی کے امیر کم جبکہ عمران خان کے ترجمان زیادہ لگتے ہیں ۔ فیصلہ ایسا آیا ہے کہ اس پر سب خوشی کا اظہا رکررہے ہیں لیکن اس کے اس پہلو پر کوئی توجہ نہیں دے رہا کہ اس فیصلے نے یہ بھی ثابت کردیا کہ یہ سب ایک جیسے ہیں ۔ میاں نوازشریف اپنے آپ کو صاف ثابت نہیں کرسکے اور عمران خان ان کو مجرم ثابت نہیں کرسکے ۔ یہی عدالت کے فیصلے کا نچوڑ ہے ۔ اب اس کے بعد ان دونوں کے پاس کیا اخلاقی جواز ہے کہ وہ بطور لیڈر اس قوم کے سروں پر مسلط رہیں ۔ لعنت ہو اس حکمرانی پر جس میں وزیراعظم بن کر بھی انسان کو اپنے ماتحت اداروں کی ٹیموں کے سامنے بطور ملزم صفائی دینی پڑ جائے ۔ اخلاقی جواز وزیراعظم کے پاس پہلے موجود تھا اور نہ اب موجود ہے لیکن پہلے انہوں نے کبھی اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دیا اور نہ اب دیں گے ۔ اسی طرح قیامت کی یہ نشانی ملاحظہ کیجئے ۔ آصف علی زرداری کسی کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے ۔ وہ شخص جن کے اقوال زریںمیں سے ایک مشہور قول یہ ہو کہ’’وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے ‘‘ اور جن کی صداقت اور امانت کی مثالیں ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کی صورت میں آج بھی ہر طرف موجود ہیں ، وہ شخص کہہ رہے ہیں کہ چونکہ نوازشریف صادق اور امین نہیں رہے ، اس لئے ان کو استعفیٰ دے دینا چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جس چیئرمین نیب پر تبرا بھیجا ہے وہ کسی اور کا نہیں اسی آصف علی زرداری کا مقرر کردہ تھا۔ اب اس کے بعد کیا ان کے پاس ایسے مطالبات کا کوئی اخلاقی جواز ہے ۔ دوسری طرف عمران خان کا کردار ملاحظہ کیجئے ۔ ان کے خیبر پختونخوا میں احتساب کے نام پر جو ڈرامہ جاری ہے ، اس کا حال یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے اس کا ڈی جی تک نہیں ۔ وزیراعلیٰ تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر اپنا من پسند بندہ لگوانا چاہ رہے تھے لیکن جب ہم نے میڈیا میں حقیقت سامنے رکھ دی تو انہوں نے اپنی کابینہ کے سامنے جھوٹ بولا۔ سراج الحق کی جماعت کے دو وزرا کابینہ کے اس اجلاس میں موجود تھے لیکن حکومت کے وسیع تر مفاد میں خاموش رہے ۔ جماعت اسلامی کے کسی وزیر نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ وزیراعلیٰ صاحب آپ اس کے بعد صادق اور امین نہیں رہے ۔ اس سب کے بعد سوال یہ ہے کہ عمران خان کے پاس کیا اخلاقی جواز ہے کہ وہ اخلاقیات کی بنیاد پر کسی کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں ۔ جو پارٹی سول نافرمانی کا اعلان کر چکی ہے ۔ جو ایمپائر کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچتی رہی ہو۔ جن کے ممبران استعفے دینے کے بعد بے شرمی کے ساتھ اس اسمبلی میں بیٹھے ہوں جس کو وہ گالیاں دے چکے ہوں اور ناجائز تنخواہیں لے رہے ہوں، کیااس کو زیب دیتا ہے کہ وہ سیاست میں اخلاقیات کی بات کرے ۔ حیرت ہورہی ہے تو سراج الحق صاحب پر ہورہی ہے ۔مشال خان کے واقعہ نے اس پختونخوا کے اندر پولیس اصلاحات کی حقیقت واضح کردی،جس کے سراج الحق بھی حکمران ہیں ۔ مشال خان کے ساتھ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب وہاں پولیس افیسر اور درجنوں سپاہی موجود تھے ۔ میں پچھلے تین سالوں سے پختونخوا کی یونیورسٹیوں کی حالت زار کا رونا رورہا ہوں ۔ میں کئی مرتبہ وزیراعلیٰ اور سراج الحق سے نجی محفلوں میں اس موضوع پر بات کرچکا ہوں لیکن سراج الحق صاحب عمران خان کی خاطر مجرمانہ خاموشی کامظاہرہ کرتے رہے ۔ سراج الحق اس حکومت کا حصہ ہیں جس میں یہ سب جرائم اور مظالم ہورہے ہیں ۔ عمران خان نے تو مشال خان کے موضوع پر واضح موقف اپنا کر کسی حد تک یونیورسٹیوں کے معاملے میں اپنے گناہوں کی تلافی کردی لیکن سراج الحق صاحب نے آج تک اس حوالے سے کوئی موقف نہیں اپنایا۔ حالانکہ ان کی زبان سے ہم ہزار مرتبہ مولانا مودودی کا یہ قول سن چکے ہیں کہ حق و باطل کے معاملے میں غیرجانبدار نہیں رہا جاسکتا ۔ میں نے سراج الحق صاحب سے فون کرکے یہ بھی گزارش کی کہ بے شک آپ مشال خان کے خلاف موقف اپنا لیں لیکن کچھ تو کہیں ۔ آپ اس صوبے کے حکمران ہیں اور آپ توہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کی مثالیں دے کر کہاکرتے ہیں کہ حکمران اپنی سلطنت میں کتے کی موت کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے لیکن وہ مشال خان جیسے واقعات کو دبا اور پانامہ کو اچھال رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکمرانی کے بعد کیا سراج الحق کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے کہ وہ اخلاقی بنیادوں پرکسی سے استعفے کا مطالبہ کرے ۔ شیخ رشید احمد نے کیا غضب کا فقرہ کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم دو پرچوں میں فیل ہوگئے اور تین پرچوں پر سوالات ہیں لیکن پھر بھی وہ جشن منارہے ہیں کہ امتحان پاس کرگئے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں زرداری، عمران خان ، سراج الحق اور پھر خود شیخ رشید کے پرچوں کا بھی یہ عالم ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں میڈیا اور بعض دوسرے اداروں کے پرچوں کا بھی یہ عالم ہے ۔پرویز مشرف کے معاملے میں میرٹ پر پرچوں کی چیکنگ نہیں کی جاسکی، توکیوں کر نوازشریف کے پرچوں کو میرٹ پر چیک کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح میرٹ پر پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کی رکنیت یا پھر دھرنوں کے معاملے کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، تو کیوں کر کسی اور کے پرچوں کو میرٹ پر چیک کیا جاسکتا ہے ۔پھر زرداری اور ان کے حواریوں کے این آر او کے فیصلوں کو بھی میرٹ پر چیک نہیں کیا جاسکا اور وہ بھی پاس ہوگئے۔
.