• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانامہ فیصلہ اور وزیر اعظم کی ’’لڈی ہے جمالو الیون ٹیم ‘‘

پانامہ کا فیصلہ سناتے ہوئے فاضل جج نے اپنا اختلاقی نوٹ لکھتے ہوئے انڈر ورلڈ ڈان مافیاکی زندگی سے متعلق بنائی گئی شہرہ آفاق فلم ’’گاڈ فادر‘‘کے مشہور ڈائیلاگ کا حوالہ دیاہے’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم چھپاہوتاہے‘‘۔مذکورہ فلم کی کہانی میں ایک خاندان کے سربراہ (مارلن برانڈو)کو ہر طریقے سے دولت کماتے ہوئے دکھایاگیاہے۔اس راہ پر چلتے ہوئے وہ اپنے خونی رشتوں کوبھی کھوبیٹھتاہے ۔مارلن برانڈو نے انڈر ورلڈ ڈان مافیا کا کردار اس خوبی سے نبھایاتھاکہ آدھی صدی گزر جانے کے باوجود اسے فراموش نہیں کیا جاسکا۔ شاید ایسا عدالتی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اس قدر ہائی پروفائل کیس میں جسے قانونی اور سیاسی قرار دیاگیااس کے آغاز میں گاڈ فادر کے معنی خیز ڈائیلاگ درج کرکے اسے ایک تاثر دیاگیاہے ۔معاملہ نازک ہے اسے غالب کے اشارے کنایے میں بھی سمجھئے
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
پانامہ کیس کاتاریخی فیصلہ آگیا۔مدعی اورمدعاعلیہ دونوں ہی مٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں ۔ ماہرین کی اکثریت کاکہنا ہے کہ پانامہ کیس میں فاضل جج صاحبان کا فیصلہ دوٹوک ہے ،کسی جج نے بھی وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں دی لیکن مدعاعلیہان ( نوازشریف اینڈ سنز) کے حواری مٹھائیاں بانٹتے اوربینڈباجوں کے ساتھ’ لڈی ہے جمالو‘ ڈالتے ہوئے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔وزیر اعظم چونکہ نااہل قرار نہیں دئیے گئے اسلئے کہاجارہا ہے کہ وہ بے قصور ہیں،وہ سرخروہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ میڈیا پر ٹاک شوز اور تجزئیے کی ’’ہزارداستان ‘‘ سنائی جارہی ہے۔ کوئی فیصلے کو مدعی پارٹی(عمران خان ،شیخ رشید اور سراج الحق) کی جیت قرار دے رہاہے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف چونکہ نااہل نہیں ہوئے اسلئے قانون اور نون دونوں کی جیت ہوئی ہے۔ وطن عزیز کی 70سالہ تاریخ میں نجانے کتنی مرتبہ سیدھے سادے عوام کو کسی خاص ’’وقوعہ اورموقعہ واردات‘‘پر یہ باور کرایاگیاکہ ان کی تقدیر بدلنے والی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوم نے جو نہی وہ ’’تاریخی موڑ ‘‘ عبور کیاتوپتہ چلاوہ جہاں تھی وہیں ایڑیاں اٹھائے منزل کو دیکھ رہی ہے ۔
ضرور دھوکے میں منزل سے دور آپہنچے
جھجک رہا ہے بہت راہبر بتانے میں
اُدھر جج صاحبان نے پانامہ کا فیصلہ سنایا اوراِدھر خواجگان حکومت نے حسب روایت سپریم کورٹ کے احاطہ میں ہی پریس کانفرنس برپاکردی ۔خواجہ محمد آصف اورخواجہ سعد رفیق نے فیصلے کو میاں نوازشریف کی فتح اور مخالفین کی بدترین شکست قراردیا حالانکہ یہ سچ نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پانامہ کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے 13سوال اٹھائے ہیںاور تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ 7دن میں نیب،ایف آئی اے ،اسٹیٹ بنک، ایسی ای سی پی ،ایم آئی اور آئی ایس آئی کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائیں جو 60دن میں کام مکمل کرے ،نوازشریف ،حسن اور حسین پیش ہوں ،نگرانی عدالت کرے گی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہاہے کہ وزیر اعظم صادق اورامین نہیں رہے ،الیکشن کمیشن ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہاہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ ہوگا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ انہوں نے بھی وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں دی۔ 13سوالات میں شامل ہے کہ گلف اسٹیل ملز کس طرح وجود میں آئی ؟کس طرح اسے فروخت کیاگیا؟ملز پر واجب الادارقوم کی ادائیگی کس طرح ہوئی ؟گلف اسٹیل ملزکی فروخت کی تفصیلات کیاہیں ؟خرید وفروخت کا عمل کس طرح مکمل ہوااورپھر وہ کس طرح جدہ،قطراوربرطانیہ پہنچے ۔عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایاہے کہ مدعاعلیہان حسن اورحسین نواز90کے عشرے میں اتنی کم عمری میں کس طرح اتنی بڑی جائیداد کے مالک بن گئے؟فلیٹس کی طرح کیاقطری شہزادے کی جانب سے اچانک سامنے آنا والا خط محض افسانہ ہے یااس میں کوئی حقیقت بھی ہے؟؟؟یقیناخواجگان ِحکومت اور وزیر اعظم کی ’’لڈی ہے جمالوالیون ٹیم ‘‘ نے فیصلے کی تفصیلات نہیں پڑھی ہوں گی وگرنہ وہ اسے وزیر اعظم کی فتح قرارنہ دیتے ۔سابق صدر آصف علی زرداری ،عمران خان،شیخ رشید ،سراج الحق اوردیگر قائدین نے میاں نوازشریف سے مطالبہ کیاہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فوری مستعفی ہوں تاکہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم آزادانہ اپنا کام سرانجام دے سکے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف لڑی جانے والی ’’آخری جنگ ‘‘ کے ہیرو اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی پانامہ فیصلہ کے بعد منظر عام پر آئے۔ ان کا تبصرہ اور خیالات بہت واضح ہیں۔
چوہدری افتخار محمدکا کہنا ہے کہ یہ دوججوں کا نہیں بلکہ تین جج صاحبان کا فیصلہ ہے اس کے بعد جے آئی ٹی بنانے کی تو ضرورت نہیںتھی فیصلہ تو دوٹوک ہے ۔انہوں نے کہاکہ یہ وزیر اعظم کے خلاف بہت بڑا فیصلہ ہے جس میں کہاگیاہے کہ وہ صادق اورامین نہیں رہے انہیں دوجج صاحبان کی طرف سے نااہلی کا سرٹیفکیٹ مل گیاہے۔وزیر اعظم اب جے آئی ٹی کے سامنے بطور ملزم پیش ہوں گے۔وہ اس قابل نہیں رہے کہ ممبر قومی اسمبلی رہ سکیںمعاملہ جے آئی ٹی کے حوالے کرنے کامقصد یہ ہے کہ مکمل تحقیقات ہوسکیںلیکن ان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے یہ کام کیسے ہوگا؟افتخارمحمد چوہدری کا کہناتھاکہ جے آئی ٹی بڑے کرمنل کیس میں بنائی جاتی ہے ،وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے اجمل پہاڑی اور کامران مادھوری کی طرح پیش ہوں گے میاں نوازشریف کو اس سلوک پر مستعفی ہوجاناچاہیے۔
پانامہ فیصلہ آنے اور جے آئی ٹی کے قیام کے بعد اگلا منظر کیاہوگا؟اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے کیونکہ ہم اس سے قبل بھی کئی ایک تاریخی سنگ میل اورمنزل ہائے زندگانی کا نظارہ کرچکے ہیں۔ملک میں سیاسی بے چینی، ابتری اور افراتفری بڑھ جائے گی ،اشرافیہ میں حصول اقتدار کی رسہ کشی اور ریسلنگ کے باعث قوم کا تو بھلانہیںہوسکے گاتاہم میڈیا میں میلہ مویشیاں جیسی رونق لگی رہے گی ۔میلہ مویشیا ں میں مال ڈنگر کی خریدوفروخت کے ساتھ موت کے کنوئیں اور رسے پر ڈانگ (لاٹھی ) پکڑ کرچلنے والے اوراینکر پرسنز کی ریٹنگ بڑھنے کے امکانات ہیں۔دریں اثناء پانامہ فیصلے کے مندرجات سمجھنے مارلن برانڈو اور ایل پیچی نو کی پرفارمنس سے لطف اٹھانے کے لئے گاڈ فادر دوبارہ دیکھی جاسکتی ہے۔ میڈیا میں ایک ریڈی میڈ ’’قرار داد‘‘ بھی پیش کی گئی ہے کہ جے آئی ٹی بنانے سے قبل اوررپورٹ پیش کرنے کے فوراََ بعد اس کے تمام اراکین اپنے اثاثے ڈکلیئرکریں تاکہ اس کے صحت مندانہ معیارات جانچے جاسکیں۔

.
تازہ ترین