• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارش تو تھم گئی ہے مگر چھت ٹپک رہی ہے
پاناما کیس:وزیراعظم بچ گئے، سپریم کورٹ کے 13سوال، تحقیقات کا حکم۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ سب اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں یہ نہ پوچھیں کون کس بات پر کیوں شکر ادا کر رہا ہے؎
نواز ہو مریم ہو کہ شہباز
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ شکر گاہی
خوش ہم بھی اور ہم جیسے بھی بہت ہیں مگر حکمرانوں کی قابل دید خوشی میں، سارا شہر ہنس رہا تھا دیکھا دیکھی ہم بھی ہنس پڑے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ تیرے پاس جو خالی خولی ہنسی ہے وہ کیوں چھپا رکھی ہے۔ ہم نے تاریخ میں یہ پڑھا بھی اور سیکھا بھی کہ صادق اور امین حضور سید الکونین ﷺ کے القاب ہیں اور ان سے ہی مخصوص، آج صادق، امین ہر کوئی بنے ضرور مگر صادق و امین کہلائے نہیں، سچا اور امانت دار کہہ لیں مگر الصادق والامین تو فقط ایک ہی ہستی سے مختص ہیں، بہرصورت ایک ذاتی سی رائے ہے کوئی مانے یا نہ مانے، عشق کے قرینے ہی کچھ اور ہوتے ہیں، ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پورے شریف خاندان کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ تاحال سرخرو ہیں، اور توقع رکھتے ہیں کہ تحقیقات میں بھی سرخرو ہی رہیں گے، انسان جب تک اس دنیا میں ہے یہاں کے منصفوں کے فیصلوں کا پابند ہے، اور اس دنیا میں ہو گا تو داورمحشر خود ہی پابندی کرا لے گا، حضرت یوسفؑ پر جب تہمت لگی تو وہ خود ہی جیل چلے گئے اس واقعہ کو عندلیب شیراز نے یوں بیان کیا؎
یوسف از پاکئیِ داماں خود بہ زنداں می رود
بیگناہی کم گنا ہے نیست در دیوانِ عشق
(حضرت یوسف علیہ السلام پاکدامن ہونے کے باوجود خود ہی جیل پہنچ گئے، کیونکہ عشق میں بے گناہی کوئی کم گناہ نہیں)
٭٭٭٭
ایک گزارش
حکمرانوں، سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور پوری قوم سے درخواست ہے کہ اب پاناما بارے روایت و درایت چھوڑ کر ان بنیادی مسائل کی طرف متوجہ ہوں جو تشویشناک شکل اختیار کر گئے ہیں، اور صورتِ احوال عوام یہ ہو گئی کہ؎
چنیں قحط افتاد اندر دمشق
کہ یاران فراموش کردند عشق
(دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ یار لوگوں کو عشق بھول گیا) اور خدا کی شان دیکھیں کہ آج دمشق میں یہی صورتحال ہے ہمارا اشارہ شام کی طرف ہے کہ دمشق وہیں ہے، اگر دیکھا جائے تو ہمارا بڑا مسئلہ ایک ہی ہے، اور اس کے بطن ہی سے کئی مسائل نے جنم لیا، آج پورے ملک کے قول و فعل اور ذہن سے کرپشن منفی ہو جائے، تو ہماری جیسی مثبت صورتحال شاید کہیں بھی نہ ہو۔ پاناما کی پہلے تجہیز ہوتی رہی، پھر تکفین کی باری آئی، اب لگ بھگ اس کی تدفین بھی ہو چکی ہے، بس قبر پختہ کرنا باقی ہے، وہ بھی ہو جائے گا، اس لئے حکمران اب باقی ماندہ وقت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے وقف کر دیں، ہم تصویر کے صرف تاریک پہلو ہی کو ہر وقت نہ دیکھیں، روشن پہلو پر بھی دھیان کریں، اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ سارے مراد امن و امان اور آئین و جمہوریت کے مطابق نمٹتے جا رہے ہیں، 2018ء کے انتخابات سر پر کھڑے ہیں تو یہ مبارک بات ہے، اسی طرح جمہوریت جڑ پکڑتی ہے، معیشت کو استحکام ملتا ہے اور عوام کے حالات اگرچہ ناگفتہ بہ ہیں، بہتر ہونے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں، سویلین حکومت، عدلیہ اور فوج اپنی اپنی جگہ متحرک ہیں ساکن نہیں تنقید کوئی اچھی چیز نہیں اسے مشغلہ یا شغل نہیں بنانا چاہئے کہ چلتے گھوڑے کو چابک رسید کرنا مناسب نہیں، بلکہ یہ گھٹیا حرکت ہے، ہاں اگر کسی کو واقعتاً کوئی غلطی دکھائی دے اور ہ اس کو ٹھیک کرنا بھی جانتا ہو تو حکومت کو اچھے لفظوں میں متوجہ کرائے۔ فضول بحث و تمحیص وقت کا ضیاع ہے۔
٭٭٭٭
لوٹے اور چھلنی کی نوک جھونک
نوک جھونک بڑی شاعرانہ سی چیز ہے اگر حسینوں سے ہو۔ طبلے اور ستار کی ہو، یار سے یار کی ہو، خزاں اور بہار کی ہو، نور اور نار کی ہو مگر جب اس میں تحقیر شامل ہو جائے تو زندگی انگاروں پر لوٹتی شکوہ سنج مسیحائی ہو جاتی ہے، کسی کو نیچا دکھانا، حقارت بھری نظروں سے دیکھنا ایسا گناہ ہے کہ گناہ بھی کانپ جاتا ہے، جو ہے اسے نعمت یغما سمجھ جو ابھی ملنا باقی ہے، اس کا انتظار نہ کر؎
شباب، آہ! کہاں تک امیدوار رہے
وہ عیش، عیش نہیں جس کا انتظار رہے
اکثر ہم اپنے عیبوں کی درستگی سے لاپروا دوسروں کے نقص تلاش کرتے ہیں، یہ کیسی ذکر معاش کرتے ہیں، چھلنی ہوتے ہوئے لوٹے کو اس کے دو سوراخوں کا طعنہ دینا انتخاب گناہ ہے، حافظ نے کہا ؎
می آرم اعتراف گناہِ نبودہ را
(جو گناہ میں نے نہیں کئے لیکن مجھ سے سرزد ہو سکتے اس کا بھی پیشگی اعتراف کرتا ہوں)
جو غیبت کرتے ہیں وہ اپنے گناہوں سے چشم پوشی کرنا چاہتے ہیں، جو خوشامد کرتے ہیں وہ مدلل بھیک مانگتے ہیں، جو آپ سے نفرت کرتے ہیں وہ آپ کو تسلیم کرتے ہیں، جو چھنتا ہے اسے بہت بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے، گل کی جوانی سے لطف اندوز ہوں، مرجھا جائے تو اس کا احترام کرو، دوستی اس سے کرو کہ سب تمہارا احترام کریں، دشمنی اس سے کرو کہ سب تمہارے دوست بن جائیں، ہمارے ہاں سیاست بدنام ہوئی کس کے لئے دولت کے لئے، خدائی طشت از بام ہوئی تیرے لئے، لوٹا اپنے دو سوراخوں پر نازاں نہ ہو، چھلنی اپنے بیشمار چھید کم کرے، یا لوٹا خود کو وضو کے لئے وقف کر دے اور چھلنی، چھاننے کے کام آئے، ایک پشتو گیت کا ترجمہ ہے:
(ہر شخص پیدا ہوا ہے کسی کام کار کے لئے، ہر خنجر تیز کیا جاتا ہے وار کے لئے اور زلفیں جب خم کھاتی ہیں تو یار کے لئے)

.
تازہ ترین