• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عبدالولی خان یونیورسٹی ،مردان میں مشعال خان کے سفاکانہ قتل نے ایک بار پھر سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واقع نے باور کروایا ہے کہ عدم برداشت، عدم تحمل اور شدت پسندی جیسے عوامل کس حد تک سماج میں سرایت کر چکے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اسکی زد میں ہیں۔جنہیں عام طور پرزیادہ مہذب اور روشن خیال تصور کیا جاتا ہے۔ انہی روشن خیالوں نے حرمت اسلام اور ناموس رسولﷺکے نام پر ولی خان یونیورسٹی میں انتہائی سفاکی او ردرندگی کا مظاہرہ کیا ۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند برسوں میںتوہین مذہب کے جواز پر قتل و غارتگری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم بیشتر معاملات میں توہین کے شواہد ہی نہیں ملتے۔ پتہ چلتا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے رونما ہوا ہی نہیں۔ یعنی اللہ اور رسول ﷺ کے سپاہی ہونے کے نام نہاد دعویدار ، جھوٹے الزامات کو بنیاد بنا کر اپنی ذاتی عداوت اور رنجش کا بدلہ چکاتے رہے۔ مشعال خان کے معاملے میں بھی یہی حقائق سامنے آئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک واضح کر چکے کہ کسی قسم کا توہین آمیز مواد مشعال کے سوشل میڈیا اکائونٹ پرموجود نہیں تھا۔ کیا یہ گستاخی اور توہین(نعوذ باللہ) نہیں کہ اللہ اور رسول ﷺ کا نام لے کر بہتان تراشی اور قتل ناحق کیا گیا؟ اس رب کا نام استعمال کر کے، جو فرماتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ، پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ اس پیارے نبی ﷺ کے نام پر یہ وحشیانہ کھیل کھیلا گیا ،جسکی تمام زندگی بدترین دشمنوں کو معاف کرتے اور انکے لئے ہدایت کی دعا کرتے گزری۔ جس نے فتح مکہ کے دن سنگین گستاخی کے مرتکب دشمنوں کیلئے عام معافی کا اعلان فرمایا ۔ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی سچا عاشق رسولﷺ، بلا وجہ کسی معصوم کو جان سے مار ڈالے، اسکے مردہ جسم پر لاٹھیاں برسائے، اسے برہنہ کرے اور لاش کو جلانے کی کوشش کرے۔ دین اسلام اور نبی ﷺ کی تعلیمات سے معمولی آگہی رکھنے والا بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ فعل غیر انسانی ہے اور غیر اسلامی بھی۔
انتہائی دکھ کی بات مگر یہ ہے کہ ہمارے دینی حلقوں نے کبھی ا یسے معاملات کی حوصلہ شکنی کیلئے دو ٹوک موقف اختیار نہیں کیا۔ انفرادی طور پر ضرور مذمت کی جاتی رہی، مگر آج تک کوئی مشترکہ بیان جاری ہوا ، نہ ہی کوئی حکمت عملی وضع کی گئی۔ جب کہا جاتاہے کہ لوگوں کی تہذیب نفس اور سماجی رویوں کی تشکیل میں محراب و منبر اپناکردار ادا کریں۔توبیشتر علماء موقف اختیار کرتے ہیں کہ پہلے کہ حکومت عالم اور امام مسجد کی تعیناتی کا طریقہ کارتبدیل کرے اور انکی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرے۔ اگر ایسا ہے تو حکومتوں کو ضرور اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ مگر امام مسجد اور عالم دین کی تربیت بھی کیا حکومتوں کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے؟ یہ ذمہ داری تو خود علمائے کرام پر عائد ہونی چاہئے۔ یوں بھی کوئی حکومت دینی معاملات کی اصلاح احوال کی سکت نہیں رکھتی۔ دینی حلقے کبھی بھی اس پر آمادہ نہیں ہوئے۔ نیشنل ایکشن پلان میں جب مدارس کی اصلاح احوال اور نصاب کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا ذکر ہوا تو دینی حلقوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ وہ طوفان اٹھا کہ حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ لہذا علمائے کرام کا فرض ہے کہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ توہین مذہب اور ناموس رسول ﷺ کے نام پر بننے والے جھوٹے مقدمات اور الزامات کے خلاف بلند آہنگ فتوے جاری کریں۔ عوام کو بتائیں کہ جو لوگ ایسی بہتان تراشی کرتے ہیں، دراصل وہ خود مذہب اور اسکی تعلیمات سے روگردانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم بھی دیں کہ واقعتا اگر توہین مذہب کا واقعہ رونما ہوتا ہے، تب بھی یہ حق صرف ریاست کاہے کہ مجرم کی سزا کا تعین کرے۔ چند مشتعل افراد کو یہ حق ہرگز نہیں دیا جا سکتا ۔ دوسری طرف ریاست کو بھی غور کرنا ہو گا کہ جب نظام انصاف اور نظام قانون بروقت انصاف کی فراہمی سے قاصر ہوں، تب لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور چوراہوں پر عدالتیں لگانے کی طرف مائل ہوں گے۔ اگرچہ ہماری تمام سیاسی جماعتیںعدالتی نظام کی اصلاح احوال کا انتخابی نعرہ لگاتی رہیں، تاہم عملی طور پر کسی حکومت نے اس پر سنجیدگی دکھائی نہ اپوزیشن جماعتوں نے۔ خود عدلیہ کے با اختیار حلقے بھی نظام انصاف کو موثر اور تیز رفتار بنانے کی طرف توجہ مبذول نہ کر سکے۔
پاکستان میں انتہا پسندی اور تشدد پسندی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر تحمل و برداشت کو فروغ دیا جائے۔اس حوالے سے تعلیمی درسگاہوں،خاص طور پر جامعات ، کا کردار نہایت اہم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام،محض ڈگری مہیاکرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ تربیت کا عنصر اس میں سے نکل چکا۔ اخلا قی اقدار کا فروغ اور سماجی رویوں کی تعمیر نصاب کا حصہ ہے نہ اساتذہ کی ترجیحات کا۔ بیشتر پروفیسرز کا نقطہ نظر ہے کہ ذہن سازی صرف اسکول کی سطح تک ممکن ہے۔ انکی دلیل ہے کہ جامعہ کا طالب علم اپنے اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے ۔ اور اسی کے مطابق سوچ اور طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ یعنی تسلیم کر لیا جائے کہ ہماری جامعات سماج میں تبدیلی لانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ ہماری انتہائی ناکامی ہے۔
درسگاہیں کوئی عام جگہیں نہیں ہوتیں۔مغرب کی بات نہیں کرتے ۔ برصغیرمیں علی گڑھ کالج اور دارالعلوم دیو بند جیسے اداروں کا کردار ہمیں یاد ہونا چاہئے۔ان اداروں نے انتہائی کٹھن وقت میں مسلمانوں کی تربیت کی۔ آج ہم نے استاد کو کریڈٹ آور مکمل کرنے، کورس پڑھانے اور تحقیقی مقالے لکھنے تک محدود کر رکھاہے۔ تحمل،برداشت،بردباری،حق گوئی،رزق حلال،ادب واحترام،ایمانداری او ر دیا نتداری جیسے افکار کی ترویج اسکی ترجیحات سے خارج ہے۔ ایسی صورت میں وہ نئی نسل کی تربیت کیسے کرے۔
پھر ہمارا میڈیا ہے۔ ایسے معاملات کو وہ شاید ہی ٹاک شوز کا موضوع بناتا ہو۔ اسکی ترجیح اول سیاست ہے۔ ماردھاڑ اور شور شرابے سے بھرپور مباحثے نہ ہوں تو بات نہیں بنتی۔ جو رویے اور طرز گفتار ہم دکھاتے ہیں،شعوری لاشعوری طور پر عوام وہی اپناتے ہیں۔ سیاستدانوں کا مجموعی طرز عمل بھی معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہے۔ تلخ گوئی، دشنام طرازی اور الزام تراشی کو انہوں نے رواج دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کو خواہ ناگوار گزرے، سچ مگریہی ہے کہ اس جماعت نے سب سے بڑھ کر شدت پسندی کو فروغ دیاہے۔ جوابا مسلم لیگ (ن) کی مخصوص ٹیم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میںکوشاں رہتی ہے۔ دیگر جماعتیں بھی اس میں مقدور بھر حصہ ڈالتی ہیں۔ درحقیقت سماج میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی میں ہم سب حصہ دار ہیں۔ پاکستان جس نازک وقت سے گزر رہا ہے ، اسکا تقاضا ہے کہ ہم انتہا پسند اور شدت پسند رویوں کی بیخ کنی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہمیں معاشرے میں تحمل، برداشت، اور بردباری کے فروغ کیلئے مشترکہ کاوش کرنا ہوگی۔ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ، اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے، اپنا کردار ادا کرناہو گا۔جب تک ہم سماجی رویوں کی تعمیر و تشکیل کو اپنی ذاتی ذمہ داری نہیں سمجھیں گے، تبدیلی کی امید لاحاصل ہے۔

.
تازہ ترین