• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہانی کا آغاز 1994ء سے ہوتا ہے۔ طیب اردوان نے 1994ء سے لے کر آج تک ملک و قوم کی ہر قسم کی خدمت ہے۔ 22 سال پہلے جب استنبول کے میئر بنے تو استنبو ل ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ اور گندگی کا ڈھیر تھا۔ انہوں نے چند ہی سالوں میں استنبول کو فری جرائم اور فری کرپشن کردیا۔ جس شہر میں لوگ آنے سے ڈرتے تھے، وہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آنے لگے۔ جب ترکی کے لوگوں نے طیب کی خدمت کو دیکھا تو انہوں نے طیب اردوان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ ترکی کے وزیراعظم اور صدر منتخب ہوگئے۔ طیب اردوان ترکی کو جدید فلاحی اور اسلامی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ سفر جاری تھا کہ ترکی کے بہی خواہوں نے 15 جولائی 2016ء کو شب خون ماردیا۔ فوجی بغاوت کے بعد طیب اردوان کی حکومت جانا یقینی تھا۔ 15 منٹ کے بعد ترکی صدر اپنی کابینہ سمیت جیل میں ہوتے، لیکن جب عوام نے ان کا ساتھ دینے کا ارادہ کرلیا تو حالات پلٹ گئے۔ عوام نے بوٹوں اور ٹینکوں کو شکست دیدی۔ عوام ہمیشہ انہی کا ساتھ دیتے ہیں جو ان کے مسائل کا حل کرتا ہے۔ جو ان کے دُکھ درد میں شریک ہوتا ہے، جو ان کے آنسو پونچھتا ہے، جو ان کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی راحت قربان کردیتا ہے۔ طیب اردوان نے اپنے دورِ حکومت میں جو کارنامے سرانجام دئیے اس کی ایک جھلک دیکھیے۔ طیب اردوان نے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کا 23.5؍ ارب ڈالر کا ملکی قرضہ زیرو کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کردی۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات کیں۔ نتیجتاً جن اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد 65 ہزار تھی، وہ 8 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد 98 سے بڑھاکر 190 کردی۔ ساری قوم کے لئے گرین کارڈ کا اجرا جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں ہمہ وقت مفت علاج کی سہولت ہوگئی۔ 12 برس میں ہوئی اڈّوں میں26 سے 50 کردی۔ صرف سیاحت سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدن 20 ؍ ارب ڈالر ہے۔2002ء سے 2011ء کے درمیان ترکی میں 13500 کلومیٹر طویل سڑکیں بنائیں۔ 2009ء میں ترکی میں تیز رفتار ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ 1076 کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائنیں بچھائیں۔ تعلیمی بجٹ 7.5؍ ارب ویرا سے بڑھاکر 34؍ ارب ویرا ہوگیا۔ ترکی کو آلودگی سے پاک، جرائم سے پاک، مافیا سے پاک اور رواں دواں ٹریفک والا ملک بنایا۔ پانی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کی اور بلوں میں بھی نمایاں کمی کی۔ ترکش ائیرلائن یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں بڑی ائیرلائن بن گئی۔ ناپ تول میں کمی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ختم کردی۔ ملک کو اقتصادی لحاظ سے 111 نمبر پر موجود ملک کو اٹھا کر 16 ویں نمبر پر پہنچایا۔ ترکی پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروپ G-20 میں شامل ہوا۔ 2013ء میں ترکی کی سالانہ قومی پیداوار 1100 ارب ڈالر تک جاپہنچی تھی۔ پہلے ایک عام ترکی کی سالانہ آمدن 3500 ڈالر تھی، اب وہ آمدن بڑھ کر 11ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ترکی میں اقتصادی خوش حالی کے نتیجے میں لوگوں کی تنخواہوں میں 300فیصد اضافہ ہوگیاہے۔ ملازم کی بنیادی تنخواہ جو کسی دور میں 340لیرا تھی، اب بڑھ کر 957لیرا تک پہنچ گئی ہے۔ ترکی کا بجٹ خسارہ جو بڑھ کر 47ارب تک پہنچ گیا تھا، اس کو ختم کردیا۔ ورلڈ بینک نے ترکی کو قرض دے رکھا تھا۔ اردوان نے سارا قرض لوٹا دیا۔ اس کے برعکس ترکی نے ورلڈ بینک کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے خزانے میں 100ارب رکھے ہیں۔ اس دوران یورپ کے متعدد ممالک قرض کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہاں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الیکٹرانک سامان میں سے ہر تیسرا سامان ترکی کاتیار کردہ ہوتا ہے۔ 2023ء وہ سال ہے جس کے بارے میں طیب اردوان نے اعلان کیا کہ ترکی اس سال دنیا کی سب سے پہلی اقتصادی اور سیاسی قوت بن جائے گی۔ دس سال کے دوران اردوان کی حکومت نے ملک بھر میں دو ارب 77 کروڑ درخت لگائے ہیں۔ ترک حکومت نے کچرے کو ری سائیکل کرکے توانائی بنانے کے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے ترکی کی ایک تہائی آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یورپ میں آنے والے اقتصادی بحران کے فوری بعد یورپ اور امریکا بھر میں یونیورسٹی اور اسکول فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا۔ اس کے برعکس طیب اردوان نے سرکاری حکم نامہ جاری کیا کہ یونیورسٹی اور اسکول کی تعلیم مفت ہوگی اور تمام تر اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ ترکی کا ہدف ہے کہ 2023ء تک 3لاکھ محققین تیارکیے جائیں گے، تاکہ ملک میں نت نئی تحقیقات کا دروازہ کھل سکے۔ ترکی میں تعلیم کا بجٹ بڑھا کر دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ کردیا گیا ہے۔ ایک استاد کو ڈاکٹر کے مساوی تنخواہ دی جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لئے 35ہزار لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔ انہی سنہرے کارناموں کی بدولت آج طیب اردوان عوام کے دلوں میں بستا ہے۔ یہ ہیں وہ کارنامے جن کی بدولت آج کا ترکی ایٹمی طاقت نہ ہونے کے باوجود اسلامی دنیا کا لیڈر بننے جارہا ہے۔ طیب اردوان نے ملک و قوم کی خدمت کرکے عوام کے دل جیتے۔ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے کسی قسم کی رعایت حاصل نہ کی۔ طیب اردوان پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ انہوں نے عوامی پیسے سے 50 ایکڑ زمین پر انقرہ میں پہاڑ کی چوٹی پر 615 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک پرشکوہ شاہی محل تعمیر کروایا جس میں ایک ہزار کمرے ہیں۔ اس کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیں کہ یہ امریکا کے وہائٹ ہائوس سے 30 گنا بڑا ہے۔ اس قصر شاہی میں صرف قالین بچانے پر 7.8 ملین پائونڈ خرچ ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محل صدر طیب اردوان نے تعمیر نہیں کروایا، بلکہ تعمیرِنو کرواکر بحال کیا ہے۔ یہ صدارتی رہائش گاہ نہیں، صدارتی دفتر ہے۔ جس میں تمام سرکاری محکموں کے ذمہ دار اور ان کے نمائندے ایک چھت کے نیچے دستیاب اور اردوان کو براہ راست جواب دہ ہیں۔ اس میں غلط بات کیا ہے؟ یہ تو اردوان کی کام کی مخصوص رفتار، فوری عمل اور قلیل وقت میں نتائج کے حصول والے مزاج کا طبعی نتیجہ ہے۔ اس کام کی تو تحسین کرنی چاہیے۔ طیب اردوان نے اندازہ لگالیا تھا کہ ترکی کی مزید تعمیر و ترقی کے لئے یہ نظام ٹھیک نہیں ہے۔ صدارتی نظام ہونا چاہیے۔ اس کے لئے ملک میں ریفرنڈم کروایا گیا تو عوام نے صدارتی نظام کے حق میں ووٹ دے کر فتح دلادی۔ اب ترقی کی راہ میں کسی کو بھی کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکے گی۔ جلد یا بدیر ہمیں بھی اسی نظام پر آنا پڑے گا۔ ا گر ہمارے سیاستدان اور حکمران چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت چلے تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ طیب اردوان کی طرح ملک و قوم کی خدمت کریں۔ کرپشن سے توبہ کریں۔ ملک و قوم کا لوٹا ہوا مال واپس لائیں۔ میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ بادشاہ بننے کا خواب دیکھنے سے پہلے وہ طیب اردوان کی طرح عوام کو بنیادی ضروریات و سہولتیں ڈیلیور کریں۔

.
تازہ ترین