• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ نیم خواندگی بھی ایک طرح کی فائدہ مند شے ہے۔ جاہل تو بیچارا کسی کام کا نہیں ہوتا اور زیادہ پڑھا لکھا یعنی عالم و فاضل شخص عام طور پر زندگی بھر تشکیک کا مریض رہتا ہے یعنی وہ شک کی منزل سے آگے نکل ہی نہیں سکتا، اگر عالم و فاضل شخص شک کی حالت سے نکل کر یقین کی منزل پر پہنچ جائے تو وہ گوہر نایاب بن جاتا ہے یعنی وہ علامہ اقبال بن جاتا ہے۔ میں نے مرشدی اقبال کو علامت کے طورپر استعمال کیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر بہت پڑھا لکھا انسان شک کے مرحلے کو عبور کرکے یقین کی منزل پر پہنچ جائے تو وہ انسان کامل بن جاتا ہے۔ میرا عام طور پر مشاہدہ ہے کہ ہمارے اکثر دانشور، فقرے تراشنے اور فلسفے بگھارنے والے اور خاص طور پر سیکولر ازم کے علمبردار زندگی بھر تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں اور کچھ حضرات کے لئے ان کا وسیع مطالعہ خود ان کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ قاری ان کے علم پارے پڑھ کر اکثر اپنے آپ سے پوچھتا ہے’’کیا سمجھے‘‘ اور پھر خود ہی جواب دیتا ہے’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ اٹل حقیقت یہ ہے کہ گومگو اور غیر یقینی میں مبتلا رہنے والے عالم و فاضل شخص سے نیم خواندہ بہرحال بہتر ہوتا ہے اپنا اور دوسروں کا نقصان نہیں کرتا۔ میرے استاد پروفیسر مرزا محمد منور بعض فاضل حضرات کو فاضل بروزن فالتو کہا کرتے تھے۔
ایک عالم و فاضل قانون دان سے کل ٹی وی پر پوچھا گیا کہ حضور 20اپریل کے عدالتی فیصلے یعنی پاناما کیس کے فیصلے بارے آپ کیا ارشاد فرمائیں گے۔ وہ قانونی موشگافیوں میں الجھ کر علم بگھارنے لگے اور کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کی عملی تصویر بن گئے۔ میں اپنے آپ کو نیم خواندہ بلکہ نیم جاہل سمجھتا ہوں۔ نیم جاہل وہ ہوتا ہے جسے احساس ہو کہ ابھی اسے مزید مطالعے اور علم کی ضرورت ہے جو کچھ اس نے پڑھا ہو، سمجھا ہو اسے اس پر یقین ہو۔ کل مجھ سے اعوان صاحب نے پوچھا کہ آپ کی پاناما فیصلے بارے کیا رائے ہے۔ آپ نے بھی آئین اور قانون تھوڑا سا سہی پڑھ تو رکھا ہے۔ میرا سادہ سا جواب تھا کہ ہر چند کہیں کہ ہے کہ نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ فیصلہ ہے بھی اور نہیں بھی، فیصلہ بھی آگیا ہے اور نہیں بھی____فیصلہ وہ ہوتا ہے جس کا اثر دیکھا اور محسوس کیا جاسکے، فیصلہ وہ ہوتا ہے جو روز روشن کی مانند چمکتا اور صورتحال واضح کردیتا ہے۔ محاورے کی زبان میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتا ہے۔ میں نے ان سے مزید عرض کیا کہ قانونی موشگافیوں میں الجھنے کی بجائے میں تو اس فیصلے کے ایک پہلو سے محظوظ ہوا ہوں جسے آپ سہیل وڑائچ کی زبان میں کھلا تضاد بھی کہہ سکتے ہیں۔وہ یہ کہ دو جج صاحبان نے وزیر اعظم کو صادق و امین ماننے سے انکار بھی کردیا ہے اور پھر مزید تحقیق کے لئے باقی تین ججوں کے ساتھ شامل ہو کر جے آئی ٹی بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ جے آئی ٹی شک کو یقین میں بدلنے کے لئے بنائی جاتی ہے، اگر آپ کو الزامات کی سچائی پر یقین ہے اور آپ اپنا فیصلہ بھی سنا چکے ہیں تو پھر جے آئی ٹی کے ذریعے تفتیش و تحقیق کا کیا مطلب؟ آپ نے اپنے نتائج اخذ کرلئے ہیں اب وہ بدل سکتے ہیں نہ واپس ہوسکتے ہیں۔ جن کو الزامات کی سچائی پر شک ہے انہیں جے آئی ٹی بنانے دیجئے ۔آپ اس صورتحال سے الگ رہیے،اس لئے میں کہتا ہوں کہ فیصلہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ فیصلہ آچکا ہے یہ ایک زمینی حقیقت ہے اور فیصلہ نہیں آیا یہ ایک علمی حقیقت ہے۔ پھر میں نے ان سے آخر میں عرض کیا کہ اب آپ ان حضرات سے فیصلہ بارے پوچھئے جو تین ماہ سے گلے پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے تھے کہ پاناما کیس کا فیصلہ تاریخ کا رخ موڑ دے گا، یہ کرپشن لوٹ مار، منی لانڈرنگ اورچمک کی سیاست کا خاتمہ کردے گا اور پاناما کیس کے تاریخ پر گہرے اثرات پڑیں گے۔ اب ان سے پوچھو کہ کس تاریخ کا رخ بدلا ہے اور اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں یا ہوں گے؟ ماسوا اس کے کہ مٹھائی کی دکانوں پر منوں پڑی باسی مٹھائی لمحوں میں بک گئی اور کھانے والوں کی بڑی تعداد بیمار پڑگئی۔ میں کل سے مسلم لیگ(ن) کے ایک ممتاز لیڈر کو کال کررہا ہوں جو مجھے چھوٹے بھائیوں کی مانند عزیز ہے لیکن خلاف معمول وہ فون کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ رات دیر سے ان کا مسیج ملا کہ بھائی جان بیمار ہوگیا ہوں، طبیعت علیل ہے زیادہ وقت غسل خانے میں گزرتا ہے۔ میں ان کا مسیج پڑھ کر زیرلب مسکرایا اور لکھا’’ہورچوپو‘‘ اور ’’ہور‘‘ مٹھائی کھائو، اگر اسلام آباد کی مٹھائی کھانے والوں کا یہ حال ہوا ہے تو دوسرے قصبوں ،دیہات اور شہروں میں ڈھول کی تھاپ پر مٹھائی کھانے والوں کا کیا انجام ہوا ہوگا؟ جواب ملا اسلام آباد میں مٹھائی کھانے والے صرف کارکن ہی بیمار ہوئے ہیں، وزراء اور ا علیٰ عہدیداروں کو کچھ نہیں ہوا۔ ان کے معدے ما شااللہ مضبوط اور وسیع ہیں۔ وزارتیں بچنے کی خوشی میں ان کے چہروں کی چمک اور بڑھ گئی ہے اور زبانوں کی تلواریں مزید تیز ہوگئی ہیں۔ فی الحال مجھے پاناما کیس کے فیصلے کے یہی اثرات نظر آئے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔لیکن میری نیم خواندگی یقین سے کہتی ہے کہ اس فیصلے سے کرپشن، لوٹ مار، منی لانڈرنگ، بیرون ملک اثاثوں کی ہوس اور دولت کے پہاڑ بنانے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی اس سے سیاستدانوں کی سیاسی صحت پر کوئی فرق پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں پاناما کا خوف، بہت سے دوسرے مقدمات کی مانند ختم ہوچکا۔ گویا فیصلہ کرپشن کو دفن کرنے کی بجائے ہلہ شیری کاکام کرے گا پیا’’بنے‘‘ کوتوال، ڈرکاہے کا اب تو ڈر ا تر چکا۔



.
تازہ ترین