• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کس کی آس ٹوٹی اور کس کی اُمید بر نہ آئی، ہر کوئی اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔ سیاسی دھماکہ ہوا نہ وزیراعظم کی نااہلی، عدالتی اختیار حد سے پھلانگا نہ انصاف کا قتل، انقلابی فیصلہ ہوا نہ اعتدال کا دامن چھوٹا، کرپشن کے نظام کا مداوا ہوا نہ مبینہ کرپشن سے دامن پاک ہوا، سیاسی دھماکہ ہوا نہ احتسابی نظام کی کوئی اصلاح، مدعی بھی خوش اور مدعا علیہ بھی ناراض نہیں۔ یہ ہے عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور اختلافی نوٹ کی درفنطنی!! اب ہر کوئی بغلیں بجایا کیے اور مسلم لیگ نون گلے میں پڑا ڈھول۔ تاریخ میں ایسے بڑے مقدمے میں ایسے فیصلے کی نظیر کوئی ڈھونڈ کے تو دکھلائے۔ وکیلوں کو عدالتِ عظمیٰ نے چھٹی کا دودھ ہی تو یاد دلایا ہے کہ ریویو کے لئے کوئی تیار نہیں۔ معاملہ پھر وہیں ہے جہاں تھا۔ الزامات تو الزامات ہی ہوتے ہیں، شفاف شہادتوں، مصدقہ دستاویزات اور ٹھوس ثبوتوں بنا عوامی جلسوں اور ٹیلی وژن اسکرینوں پر رائی کا پہاڑ تو تعمیر کیا جا سکتا ہے لیکن مدعی کی منشا عدالت پوری کرے تو کیسے؟ اور مدعا علیہ ٹھوس سوالوں کے جواب روحوں سے طلب کیے جانے کی بند گلی میں دھکیلے تو عدلیہ گونگی بہری ہونے سے رہی۔ پانامہ کیس کے فیصلے نے البتہ عمران خان کی کسی نہ کسی طرح میاں نواز شریف کے میدانِ سیاست سے بے دخل کیے جانے اور خالی میدان مارنے کی دیرینہ خواہش پہ پانی پھیر دیا ہے۔ پہلے وہ فوجی مداخلت کے لئے ہر حد پھلانگ گئے، اب عدالتی انقلاب (Judicial Coup) سے ناحق اُمید باندھ بیٹھے۔ اعتزاز احسن اور آصف علی زرداری کو پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ مدعیوں کی دال گلنے والی نہیں۔ مدعیوں نے جتنی بھی استثنائیں گھڑی تھیں، عدالتی فیصلے نے کسی ایک کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ عدالت بھلا کیسے آئین کی شق 184(c) کی حدود و قیود کو پھلانگ سکتی تھی۔ نہ تفتیش نہ جرح، نہ مناسب فورم پر عدالتی کارروائی اور ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دو؟ بھئی کیوں؟ جسٹس افتخار چوہدری کی عدالتی چوہدراہٹ کے دہرائے جانے کی تمنا پوری کرنے پہ اکثریتی فیصلے کے مصنف بھلا کیوں راضی ہوتے۔ ہر برائی یا کامیابی کے پیچھے کوئی ناقابلِ پکڑ جرم چھپا ہوتا ہے۔ جی ہاں! ہم اس عمومی برائی کو جانتے ہیں! لیکن ایسے ملزم کو پکڑنا ہی تو تفتیش اور جائز عدالتی چھان بین اور انصاف کرتے ہوئے قانون کے تقاضے پورے کرنا ہی تو عین عدل ہے۔ وگرنہ ایک آئینی، جمہوری نظام کی کیا ضرورت جس کی عدلیہ ایک اہم ستون ہے۔
لوگ اپنے اپنے سیاسی مفاد میں اکثریت و اقلیت کے متضاد فیصلوں کی بحث میں پڑ گئے ہیں۔ فیصلہ تو ایک ہی ہے اور اختلافی نوٹ محض ضمیر کی خلش دور کرنے کی تسلی، سو وہ دو معزز جج صاحبان کو مبارک! لیکن سوال یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے ایک ایسی درخواست پر اتنی لمبی چوڑی کارروائی کیوں کی جبکہ اس کا نتیجہ تو وہی نکلنا تھا جو ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق جہاں سے شروع ہوا وہیں پہ لوٹ گیا۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے عدالتی کارروائی سے پہلے حاضر جج کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل کی بات کی تھی جو درست تھی۔ لیکن عمران خان نے سختی سے اس راستے کو مسترد کر دیا۔ اُنھیں اب جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) ملی ہے تو صبر شکر کریں کہ وہ سپریم کورٹ کے بنچ کی منتخبہ ہوگی اور ایک اور اسپیشل بنچ کے سامنے جوابدہ۔ یہ آئینی جمہوریت کا حُسن ہے اور ہماری عدلیہ کی شان کہ مدعا علیہ بشمول وزیراعظم ابھی کٹہرے میں ہیں اور اُنھیں 13 سوالوں کا جواب دینے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سات سوالوں کا تعلق براہِ راست میاں شریف سے ہے جنہیں اللہ کو پیارے ہوئے اک عرصہ ہو چکا۔ دو سوالوں کا تعلق سمندر کے کنارے قائم کمپنیوں کے ناقابلِ پہنچ کھاتوں سے ہے اور بقیہ چار سوالوں کا تعلق میاں نواز شریف کے دو بیٹوں اور اُن کے کاروباری معاملات سے ہے اور ان کے بیچ میں مرحوم میاں شریف ہیں یا پھر آف شور کمپنیاں۔
ان سوالات کا جواب تلاش کرنا جوئے شیر لانا ہے۔ اس کے لئے 60 روز تو کیا 600 دن بھی کافی نہیں۔ اب یہ میاں نواز شریف کی چوائس ہے کہ وہ سیاسی ضرورت کے تحت انتخابات سے قبل ان سوالات کی تشفی کا کوئی مناسب بندوبست کریں اور پیسے کی لکیر کی ٹوٹی کڑیاں جوڑنے میں معاونت کریں۔ یا پھر JIT کو سوئیوں کی تلاش میں عرب کے دہکتے ریگستانوں میں بھٹکتے پھرنے اور آف شور کمپنیوں کے مقفل دروازوں پہ دستک دینے کی لاحاصل کوششوں میں تھک ہارنے دیں۔ وزیراعظم مطمئن ہیں کہ وہ اگلے برس انتخابات تک اقتدار میں رہیں گے اور باقی وقت کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر لگا کر اگلے انتخابی دنگل میں اُترنے کی تیاری کریں گے۔ اُن کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ اُن کی سیاسی معتمد اور ممکنہ جانشین مریم نواز کا دامن صاف نکلا ہے۔ وہ انھیں ابھی سے میدان میں اُتار سکتے ہیں۔ لیکن عدلیہ کا فیصلہ کیسے ہی وزیراعظم کے حق میں رہا ہو، اُن کے خلاف ایک بڑی مہم شروع ہونے کو ہے،اس بار دو ججوں کے ناموافق اقلیتی حاشیے پر استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑے گا۔ حیرانی کی بات نہیں کہ عمران خان، سراج الحق اور ہمارے شیخ چلی فیصلے پر مٹھائی بانٹ کر کس برتے پر احتجاج کرنے نکلے ہیں۔ چلئے پیپلز پارٹی تو اعتراض کرے کہ وہ عدالتی عمل سے باہر رہی لیکن سپریم کورٹ میں فریقین نے عدالتی صوابدید پر اپنے مکمل اعتماد و ایمان کا بارہا اظہار کیا تھا اور اب وہ عدالتی فیصلے کی مٹی پلید کرنے باہر نکلے ہیں۔
اسقاط اگر ہوا ہے تو اُن قومی توقعات کا کہ کرپشن کے نظام کو نکیل ڈالی جائے گی۔ کرپشن کا گمبھیر اور خوفناک مسئلہ اقتدار کی سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔ اور ایسا دہائیوں سے ہوتا رہا ہے کہ اقتدار میں سیاستدانوں کو خوار کرو اور اُن کی جگہ لو۔ اگر کرپشن کے معاملے اور احتساب کے نظام کے قیام کے لئے کوئی سنجیدہ ہے تو اس استحصالی اور کرپشن خوردہ نظام کی اصلاح کا بندوبست کیا جائے۔ ماضی کے سایوں اور روحوں کا تعاقب کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ لیکن کون ہے جو یہ کرے کہ سبھی کے ہاتھ اس کارِ مذلت میں رنگے رہیں۔ ہمارا سارا نظام ہی اس پر چلتا ہے تو کسی ایک کو سولی پہ چڑھانے سے کچھ ٹھیک ہونے والا نہیں۔ پھر بھی ہمارے احتساب کے پیمبر خونی احتساب کی رٹ لگا کر انتہاپسند اور متشدد نظریات کے فروغ کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں اپنے پروگرام اور لائحۂ عمل کے ساتھ اُتریں اور حریف کے مقابل متبادل پیش کریں۔ دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے والے جب حریف کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے میدان سے باہر کرنے کی سازشیں کریں اور جھوٹی سینہ کوبی کریں تو یہ اُن کی سیاست کا دیوالیہ پن نہیں تو کیا ہے؟ وزیراعظم موجود ہیں اور اپوزیشن بھی متحرک۔ جمہوری آزادیاں بھی ہیں اور انتخابی اصلاحات کے لئے آپ کی نظرِ کرم کی ضرورت بھی۔ لیکن بدقسمتی سے متبادل پروگرام اور نظریات کی جگہ، جاوے جاوے، آوے آوے، گو وہ اور گو یہ کی تکرار کے سوا سامنے کچھ نیا آتا لگتا نہیں۔ اپنے تو مقدر میں خوابوں کے چکنا چور ہونے کی ایک اور شام آتی دکھتی ہے۔ اب بغلیں بجائیں تو کیسے جب ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم!



.
تازہ ترین