• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اسلام آباد آیا تو دو دن کےلئے تھا مگر’’اُس بازار ِ سیاست ‘‘کی گرمی نے پائوں جکڑ لئے۔بہت سی ملاقاتیں اور باتیں ادھوری تھیں انہیں پورا کرتا رہا۔ مارگلہ کے قدموں سے لپٹی ہوئی کوہسار مارکیٹ میں صبح سے رات گئے تک رابطوں کے سلسلے جاری رہے۔کچھ ملاقاتیں شاہراہ ِ دستورپر ایستادہ بلندو بالا عمارتوں میں بھی ہوئیں ۔ہمارے دوست اور کہنہ مشق صحافی چوہدری غلام حسین کا اصرار تھا کہ پائے تخت کوہسار مارکیٹ کو ہی رکھاجائے ۔بے شک گپ شپ کا مزا پُررونق جگہوں پر زیادہ آتا ہے ۔سومیں نے اور مظہر برلاس نے ان کے فرمان کوایسے ہی قبول کیا جیسے رات چاند کو قبول کرتی ہے ۔اس بارونق مارکیٹ کے سارے ریستوران خوشگوار لوگوں سے بھرے رہتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ جس نے اسلام آباد جا کر اس مارکیٹ کو نہیں دیکھا اس نے اسلام آباد ہی نہیں دیکھا ۔ہاں توبات ملاقاتوں کی ہورہی تھی ۔تھوڑی دیر پہلے جو ملاقات ہوئی اس میں صحافی ، سیاست دان اور ایک شاعرہ فاخرہ انجم بھی موجود تھیں ۔مگر پانامہ کی گرم بحث میں شاعری سننے کی فرصت کہاں تھی ۔۱نیس اپریل کی شام کے نیم تاریک ماحول میں مختلف صحافیوں کے تجزیے سننے کا موقع ملا کہ کل کیا فیصلہ آنے والے ہے ۔ امجد علی خان کی تھیوری پر غور کیا ۔وہ ایک بڑے باپ کا بیٹا ہے ۔ میانوالی پر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر ہے ۔ آج اگر ہمارے درمیان مرحوم ڈاکٹر شیر افگن ہوتے تو قانون کی گتھیاں سلجھ چکی ہوتیں افسوس آج ہماری پارلیمنٹ میں کوئی بھی ممبر ایسانہیں جسے آئین ازبر ہو ۔ دھیمے سروں سے بات شروع کرنے والے چوہدری صاحب کئی باتوں میں کئی لوگوں کو لاجواب کرتے رہے۔ دھیمے سُر اونچے سُروں میں بدلتے رہے ۔جب رات اپنے نصف کو چھونے والی تھی تو پیپلز پارٹی کے چند رہنما بھی آ گئے جن میں فیصل کریم کنڈی ، ندیم افضل چن اور نور عالم خان شامل تھے۔مجھ ایسے محبت کے شعر کہنے والے کےلئے پانامہ کی بحث بھی شاعری سے کم نہ تھی اس رات سب کاموضوع ایک ہی تھا کہ کل کیا فیصلہ آنا ہے ۔اللہ بھلا کرے الیکٹرانک میڈیا کا اس نے بھی قوم کو ہیجانی کیفیت سے دوچار کر رکھا تھا ہر چینل پر یہی تھا کہ اتنے گھنٹوں پر تاریخی فیصلہ ۔بڑا فیصلہ اہم فیصلہ ۔انیس اور بیس کی درمیانی رات کے پچھلے پہر میں نیند کی بانہوں میں اترا تو خواب میں بھی یہی پاناما تھا ۔ بیس اپریل کی دوپہر تک ہمارے سب ملاقاتی ایسے خاموش رہے جیسے باغ میں ہوا ٹھہر گئی ہے ۔ پتوں کے ایک دوسرے کو چومنا چھوڑ دیا ہو ۔ درخت پتھرا گئے ہوں ۔بالآخر وہ وقت آگیا جب تاریخی فیصلہ سنایا جانا تھا ۔فیصلہ محفوظ تو کافی روز رہا مگر جو فیصلہ سنانے کا وقت دیا گیا تھا اُسی وقت پر سنا دیا گیا پی آئی اے کی پرواز لیٹ نہیں ہوئی ۔یہ فیصلہ واقعی تاریخی تھا ۔سب خوش تھے سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی ۔نون لیگ کے وزراء سپریم کورٹ کی دودھیا عمارت سے ایسے فاتحانہ انداز میں نکلے جیسے پاکستان میں خالص دودھ ملنا شروع ہوگیا ہو ۔میرے نزدیک فیصلے والے دن سب سے زیادہ بھلا حلوائی کا ہوا ۔سب پارٹیاں مٹھائی بانٹ رہی تھیں جشن کے اس ماحول میں نون لیگ کی اعلیٰ قیادت نے چند تصویریں سوشل میڈیا کی لہروں کے سپرد کیں ۔ چند تصویر یں دیکھ کرمجھےکچھ حسینوں کے خطوط بہت یاد آئے ۔ایک پُر فریب خط سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا گیا تھا مگرپردیس سے آئے ہوئے خط کو سب نے رد بلکہ مسترد کردیا ۔ یہ تو خط لکھنے والوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اب کونسا خطوں اورچٹھیوںکا زمانہ ہے ۔نون لیگ کے لوگوں کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس خط کو صرف مسترد کیا ہے وہ اسے بیرنگ بھی بنا سکتے تھے ۔ نون لیگ کا سارا جشن ساری نعرے بازیاں ڈیڑھ سے دو گھنٹوں پر محیط تھیں ۔ اس دوران وزیر اعظم کے خطاب کا اعلان بھی کردیا گیا مگر جونہی سپریم کورٹ سے نکل کراٹارنی جنرل شیخ اشتر اوصاف علی نےوزیر اعظم ہائوس میں ایک دوسرے کو مبارک بادیں دینے والوں کو حقیقت سے آگاہ کیا تو چراغ گل ہو گئے ۔جشن ماتم میں بدلنے لگا۔شام کے سورج کے ساتھ وزراکے چہرے اترنے لگےپھر اُس شام وزرا منظر سے غائب ہوگئے۔ مارگلہ کا لفظی مطلب ہے ’’سانپوں کا گھر ‘‘ ،اُس شام حکومتی پارٹی کے لوگوں کو صرف مارگلہ کی پہاڑیاں نہیں پورا اسلام آباد سانپوں کا گھر لگ رہا تھا ۔وزیر اعظم تواپنا خطاب منسوخ کر گئے لیکن عمران خان اور آصف علی زرداری سمیت چند اور پارٹی نے وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ کردیا ۔اب لوگ جیسے جیسے فیصلے کے صفحات پڑھتے چلے جارہے ہیں انہیں معلوم ہورہا ہے کہ عدالت نے کہا کیا ہے۔وہ جنہیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی ۔ انہیں شایددوچار دنوں کے بعد سمجھ آئے گی۔کیونکہ نون لیگ کے وہ رہنما جن کا بقول نون لیگ پانامہ میں نام ہی نہیں تھا انہیں دو سینئر ججوں نے مجرم اور باقی ججوں نے ملزم قرار دے دیا ہے۔
اکیس اپریل کی صبح ہم قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس دیکھنے پارلیمنٹ ہائوس چلے گئے ۔ابھی اجلاس شروع ہونے میں کچھ دیر باقی تھی ہم نے سوچا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی کو مبارک باد دی جائے کہ چند روز پہلے انہیں پارٹی کا صوبائی سیکرٹر ی جنرل بنایا گیا ہے ۔بس کچھ دیر بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا اپوزیشن نے وزیر اعظم کے استعفے کےلئے نعرے لگانے شروع کئے ۔ پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی شریک تھی ۔ حکومتی پارٹی کی آوازیں دبی دبی محسوس ہورہی تھیں ۔چند لمحوں میں اسپیکر نے بے بس ہو کر اجلاس ختم کرنے کا اعلان کردیا شایداسی میں عافیت سمجھی ۔ وہاں سے باہر آئے تو عمران خان ، خورشید شاہ ، شیریں رحمان اور سراج الحق سمیت کئی رہنمائوں نے میڈیا سے گفتگو کی ۔مطالبہ ایک ہی تھا بس استعفیٰ ۔دوپہر کوچوہدری غلام حسین کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات تھی ۔اس ملاقات کے بعد پھر وہی کوہسار مارکیٹ۔ہم باتیں کررہے تھے کہ اچانک نون لیگ کی دو خواتین شازیہ سہیل میر اور آمنہ مل تشریف لے آئیں ۔پھر نون لیگ کی ایک اور ایم این اے عارفہ خالد پرویز آگئیں ۔ مگر ہمیں اٹھنا پڑا کیونکہ ہماری ملاقات جہانگیر ترین سے طے تھی ۔شام ہوئی تو پھر کوہسار مارکیٹ میں آ گئے ۔یہاں اطلاع ملی کہ فیصل صالح حیات پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شامل ہوگئے ۔ہم آٹھ دس صحافی اس پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اچانک پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات جن کے بھائی جماعت اسلامی کے رکن ہیں ، نمودار ہوئے اور بالکل ساتھ والی میز پر آکر بیٹھ گئے جیسے وہ ہم میں سے کسی شخص کونہیں پہچانتے ۔اُن کا یہ رویہ دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ پیپلز پارٹی میڈیا سے کچھ شاکی رہتی ہے اس نے اپنے رویے پر کبھی غور ہی نہیں کیا ۔



.
تازہ ترین