• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے ہماری سیاست
چوہدری نثار:فیصلہ اختلافی نہیں متفقہ ہے، جے آئی ٹی مسترد، پارلیمنٹ میں ہنگامہ، اپوزیشن گرینڈ الائنس کی تجویز۔ اپوزیشن کا ردعمل تو آ گیا، عوام کا نہیں آیا، ان کو معلوم ہے کہ کوئی آئے یا جائے وہ جہاں ہیں جس حال میں ہیں وہیں رہیں گے، بڑے پیٹوں کے مفادات کی جنگ 70برس سے جاری ہے، لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری کرپشن مہنگائی رہے گی حکومت اپوزیشن تماشائی رہے گی، سب نے ایک آواز ہو کر کہا تھا جو بھی فیصلہ آئے گا تسلیم ہو گا، اب بہ الفاظ دیگر نامنظور ہے، اس ملک کی سیاست میں گو اینڈ کم کے مطالبے ہوتے رہیں گے، پرانی جینز، گٹار کا دور چلتا رہے گا، بے تکی سیاست، بے سر حکمرانی جوتیوں میں دال مانند بانٹتی رہے گی، اپوزیشن بھی ایک گونہ اقتدار ہے، یہ سارے موافق مخالف غم روزگار سے آزاد ہیں، اور بیچارے ارباب حکومت و سیاست کے مارے عوام کے لبوں پر یہی کچھ رہے گا؎
فکر معاش، ذکر بتاں، یاد رفتگاں
دو دن کی زندگی میں بھلا کیا کرے کوئی
کیا نواز شریف کے گھر جانے سے بجلی وافر ہو جائے گی، مہنگائی، کرپشن ختم ہو جائے گی؟ یہ سوال ہی اس فضا میں غلط ہے کہ یہ موضوعات حکمرانوں کے ہیں نہ اپوزیشن کے، عوام کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ دونوں کا تماشا دیکھیں مگر کسی کے لئے اپنا وقت ضائع کریں نہ بیکار کی بحثوں میں پڑیں، یہ سب اقتدار کی ہوس کا میلہ ہے، اور غریب عوام کی جیب میں دھیلہ، جن کے پاس جو کچھ ہے وہ عوام کا ہے، کیا وہ اپنی دولت واپس لا سکتے ہیں؟ نہیں تو پھر روکھی سوکھی کھا اور ٹھنڈا پانی پی۔
٭٭٭٭
ہر گزرا بُرا دن اچھا لگتا ہے
ہم کبھی خوش تھے کہ نئے چہرے سامنے آئے ہیں کچھ نیا ہو گا اور اچھا ہو گا مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی پرانے ہو گئے، سڑکیں اور عوام سلامت رہیں، کسی طالع آزما کو خالی ہاتھ گھر نہیں جانا پڑے گا، جملہ اقسام کے شریفوں کی قسمت چمک رہی ہے، اور جو ان کی ’’شرافتوں‘‘ پر تبرا پڑھتے ہیں ان کے ماتھے دمک رہے ہیں، یہاں ایسے بھکاریوں کا غلبہ ہے کہ جو حکومت میں ہیں اس کا بھی بھلا جو نہیں ہے اس کا بھی بھلا، عام آدمی کو تب پتا چلتا ہے جب نماز پڑھنے کے بعد اس کا جوتا غائب ہوتا ہے، بزرگ، نوجوانوں کو پیر نہیں بننے دیتے اس لئے انہیں بیتے دنوں کی یادوں میں الجھائے رکھتے ہیں، یوتھ کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا رہا ہے،؎
کیا کیا زرداری، خان، شریفوں نے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب تک عام لوگوں کو اپنی کثرت اور قوت استعمال کرنے کا صحیح طریقہ نہیں آتا ان کے پیسے سے خریدے ہوئے جہاز ان کا گھر لوٹنے والے اڑاتے رہیں گے، ہم اداکاری سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں، کوئی اسکرین پر بھی روئے تو ہم رو دیتے ہیں، اور ایک پھول مسل کر ایک کانٹا بو دیتے ہیں۔ پڑھے لکھے مفلسوں کی بھی کمی نہیں ان میں سے بھی کوئی نہیں اٹھتا سارا دن مختلف جگہوں پر اپنی سی وی ڈراپ کرتے ہیں، کہ شاید کوئی نوکری مل جائے تو گھر بسا لوں اگر ایک اکثریت کی قسمت ایک سے اقلیت ظالمانہ کھیل کھیلتی ہے او وہ کچھ نہیں کہتی کچھ نہیں کرتی تو آسمان بھی خاموش رہتا ہے۔
٭٭٭٭
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
آج منبر و محراب سے لے کر تمام اقسام کے میڈیاز کا اژدھام ہے، ہر خبر بریکنگ نیوز پھر بھی سامع، قاری، ناظر کنفیوژہے، جب سقوط بغداد ہوا تھا تو اس سے پہلے وہاں ہر شہر میں مباحثے، مناظرے عام تھے، ہمارے ہاں کبھی ایک چینل تھا وہ بھی سرکار کا اب بیسیوں چینلز ہیں، سب پر اس قدر جوش و جذبے سے حق کی آواز بلند کی جاتی کہ حق بھی تنگ آ کر ان گویوں سے کہیں گیلا تکیہ سر کے نیچے رکھ کر سو گیا ہے، جتنے مذہبی فرقے ہیں اتنے ہی سیاسی فرقے، ہر مہمان ہر میزبان لڑنے لڑانے میں آپے سے باہر اور کھابے کے اندر اب لوگ ٹی وی پر کوئی اچھا گیت تلاش کرتے ہیں، اور مچھلی بازار سے یوں گزر جاتے ہیں کہ ’’بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں‘‘ منہ زور آندھیاں چلتی ہیں، کالی گھٹائیں گرجتی ہیں بجلیاں کڑکتی چمکتی ہیں اور دو بوند دے کر چلی جاتی ہیں؎
آسماں بھی ہمارے ہی ڈھب سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
ہر چینل کس کی زبان بولتا ہے، کیا ہر ٹرانسمیٹر اقبال کی یہ صدا لفظی یا معنوی انداز میں نشر نہیں کر سکتا؟ اخبارات سے خبروں کا تنوع بھی جاتا رہا، ہر روز کوئی ایک خبر کئی متن لے کر کتنی ہی سرخیوں کے ساتھ چھپتی ہے، کالم کس پر لکھیں، کیا ہم جو بھارت سے بامقصد مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں ہماری اپنی گفتار میں رفتار کوئی مقصدیت ہے؟ ہر شخص نے خود کو منوانے کے لئے ہاتھ میں پتھر اٹھا رکھا ہے، اینکر کا سارا زور اس پر کہ اس سے بہتر بولنے والا کوئی نہیں، وہ بیباک نڈر اور بلند آہنگ ہے مہمانوں کو چھڑاتا لڑاتا رہتا ہے، کیا یہی فن ہے علم ہے، قوم کو بیدار کرنے کا پیغام ہے خدارا اقبال کے اس مطالبے کو پورا کریں ’’اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!
٭٭٭٭
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!
....Oمریم نواز:عمران گیند روکتے رہے وزیراعظم نے گول کر دیا،
سچ کہا بی بی! حکومت سیاست ہاکی ہے، عوام گیند، یہ کسی نے نہ سوچا کہ گیند پر کیا گزری؟
....Oجاوید ہاشمی:نواز شریف کل بھی وزیراعظم تھے، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔
ایسا تو خدا کے بارے میں کہا جا سکتا ہے ہاشمی صاحب! اتنی نہ بڑھا خوشامد حاکم کی حکایت۔ کل آج اور آئندہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات رہے گی،
....Oشیخ رشید پپو 2مضامین میں فیل 3میں کمپارٹ پھر بھی مٹھائی بانٹ رہا ہے۔
اپنی مارکنگ بھی کر لی ہوتی ،
....Oعابد شیر علی :مولوی نے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے درمیان نکاح پڑھا دیا،
آپ نے ان میں سے کس سے نکاح کرنا تھا، بتا دیں،
....Oمحمود اچکزئی:اپوزیشن کی جانب سے استعفے کا مطالبہ گناہ نہیں،
اچکزئی صاحب آپ سب نے کہا تھا فیصلہ منظور ہو گا کیا اپنے قول سے پھرنا بھی گناہ نہیں؟



.
تازہ ترین