• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر میڈیا میں تجزیوں و تشریح کی فری کوئینسی ایک ہی روز میں انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ ابھی مفصل فیصلے کے اہم نکات پر خبریں بننے کا سلسلہ کم از کم مزید ایک ہفتے تک جاری رہتا معلوم دے رہا ہے۔ جس سے تجزیوں کی تعداد میں اور تیزی آئے گی۔ فیصلے کی خبر کے بھر پور فالو اپ سے ایک اور نیا خبری موضوع ’’جے آئی ٹی کے آرڈر آف دی کورٹ پر سیاسی جماعتوں کا رد عمل‘‘ بنا ہے۔ جس سے فیصلے پر تجزیوں کے متوازی ’’قومی سیاست پر اثرات‘‘ کا خبری سلسلہ اور تجزیوں کی شکل میں اس کے فالو اپ کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ گویا موجود قومی سیاسی صحافتی منظر پر پاناما کیس اب پھر جارحانہ شکل میں غالب جگہ بنائے گا۔
فیصلے پر خاکسار کا کالم بھر تجزیہ تو اتنا ہی ہے کہ ’’فیصلہ جے آئی ٹی کے قیام کے عدالتی حکم سے ہونے والی بڑی پیش رفت کے ساتھ پاناما کیس کا تسلسل برقرار ہے۔ یعنی 20اپریل کا فیصلہ غیر حتمی بھی ہے اور نامکمل بھی اسی لئے عدالت عظمیٰ ابھی بدستور کیس کے ساتھ منسلک ہے۔ عبوری نوعیت کے فیصلے کا فائدہ کس کو پہنچا ؟ یقیناًــفوری لیکن عبوری فائدہ تو ن لیگ اور حکمران خاندان کو ہی یوں ہوا کہ وزیراعظم کے نااہل ہو کر اقتدار سے الگ ہونے کا بڑا خطرہ تو ٹل گیا لیکن منطقی انجام بذریعہ عدلیہ کی تلوار ابھی حکومتی جماعت اور خاندان کے سر پر لٹکی رہے گی اور قوم سپریم کورٹ کے مزید تفتیش کیلئے دیئے گئے سوا 2ماہ کے دیئے روڈ میپ کے منطقی انجام تک پہلے سے بھی زیادہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہے گی۔ غیر حتمی فیصلے آتے ہی ’’جے آئی ٹی کے قیام برائے مزید تفتیش‘‘ پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے اور اس پر ن لیگی رسپانس نے واضح کر دیا ہے کہ فیصلے کا ملکی سیاست پر غیر معمولی اثر فوری پڑا ہے۔ جو حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں تنائو کو بڑھائے گا۔ حکومت کو اب اپنے اصل اور بڑے اور مسلسل مخالف عمران خان اور ان کے ہمنوا سیاسی قائدین سے ہی نہیں نمٹنا، 2014ء کے غیر معمولی دھرنے میں ڈگمگاتی حکومت کو بچانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی پی پی کی فرینڈلی پارلیمانی اپوزیشن نے سپریم کورٹ کے غیر حتمی فیصلے (وزیر اعظم کے ماتحت اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی کا قیام) پر ردعمل میں وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے جتنے شدید حکومت مخالف ابلاغ کا آغاز کیا ہے وہ عملی سیاست کے میدان میں ن لیگ کے لئے شدید جھٹکا ہے، خصوصاً اس لئے بھی کہ اس کے جواب میں ن لیگ نے آصف زرداری پر الزامات کی جو بوچھاڑ کی ہے وہ اس لئے موثر نہیں ہوگی کہ سوال پیدا ہوگا کہ وہ اتنے غلط اور قومی مفادات کے لئے اس قدر تباہ کن ہیں تو ن لیگ اپنے جاری اقتدار کے 4سال میں اس پر کیوں خاموش رہی اور حکومت نے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیوں نہ کی؟ اس کے برعکس پی پی اور اپوزیشن کی دوسری جماعتیں پی پی کی خواہش کے مطابق حکومت مخالف اتحادنہیں بھی بناتیں تو بھی ان کا یک نکاتی مشترکہ مطالبہ بغیر کسی ابہام کے ’’وزیر اعظم کا استعفیٰ‘‘ ہی ہوگا جس سے حکومت ہلی اور بوکھلائی رہے گی۔ جو پہلے ہی غیر حتمی فیصلے میں سینیئر ترین جج صاحبان کے تاریخی اختلافی نوٹ میں اپنی رہی سہی اخلاقی پوزیشن گنوا بیٹھی ہے۔ جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار احمد کا یہ ہی اختلافی نوٹ حکومت مخالف احتجاجی اپوزیشن کے شروع ہوئے جارحانہ ابلاغ کا مرکزی اور معاون نکتہ بنے گا، جو اپنی جگہ بے حد اہم اور جاندار ہے۔
یوں پاناما کیس کے عبوری اور حتمی فیصلے پر مسلم لیگ ن کے جشن کا کوئی جواز تو نہیںبنتا کہ جناب نواز شریف کی وزارت عظمیٰ بدستور خطرے میں ہے کہ ابھی انہیں اور ان کےصاحبزادگان کو تفتیش کی ایک اور کڑی اذیت سے گزرنا ہے۔ عملی سیاست کے میدان میں بھی وہ بہت کچھ گنوا بیٹھے ہیں، سب سےبڑھ کر عبوری فیصلے میں ہی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور ان کے سینیئر ساتھی جج جسٹس گلزار احمد (جو آنے والے سالوں میں چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے) کے جچے تلے اختلافی نوٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کی اخلاقی حیثیت کا گراف زمین سے لگا دیا ہے، لیکن مخص پروپیگنڈہ اسٹائل میں جشن منانے سے تو لگتا ہے کہ ن لیگ سب کچھ اقتدار کو ہی سمجھتی ہے جو فیصلے سے پہلے شدید خطرے میں تھا لیکن سردست ٹلنے پر ہی فتح کا جشن اسٹیٹس کو کا مخصوص رویہ ہے۔
فلسفہ جمہوریت کی بنیاد ’’احترام آدمیت‘‘ ہے جو مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے فلسفے کا لب لباب ہے، اس لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست میں اخلاقیات کو ہمیشہ بے پناہ اہم رہنا چاہیے کہ ’’احترام آدمیت‘‘ کی کارفرمائی کا ذریعہ اخلاقیات ہی ہے جو پاکستان میں قطعی ناپید ہوگئی تو یہ ہماری قوم کی نظریہ پاکستان، بابائے قومؒ ، مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ پاکستان بننے والے لاکھوں شہدا اور بے حساب قربانیاں دینے والے اپنے بزرگوں سے غداری ہوگی۔ لگتا ہے قوم کتنی بھی گمراہی میں مبتلایا بےکس و مجبور ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی۔ تبھی پاناما کے پاکستان سے متعلق تلخ ترین اور شرمناک حقائق بے نقاب ہونے پر جب رائے عامہ کے رہنمائوں میں پاناما پر ’’کچھ نہ ہونے اور کچھ ہونے‘‘ کی بحث رائے ساز حلقوں میں شروع ہوئی تو ’’آئین نو‘‘ میں قارئین، حکومت اور سیاسی جماعتوں پر مسلسل یہ واضح کیا گیا کہ ماضی میں کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈلز کی طرح پاناما کو کسی طور دبایا نہ جاسکے گا،یہ بہرحال انجام خیز ہوگا۔ کمیشن بننے یانہ بننے اور ٹی او آر کی بحث کے دوران ’’آئین نو‘‘ میں ہی ایک بار سے زائد مرتبہ یہ واضح کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ اس بحث کو ختم کر کے ریاستی نظام کے تحت ریاستی سطح کے تفتیشی اداروں کواپنا آئینی فریضہ خود اد اکرنا چاہئے (جو انہوں نے نہیں کیا) اور بحث اس پر ہو کہ اس کردار کی ادائیگی میں شفافیت کو کیسے قائم رکھا جائے۔ طویل سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے عبوری فیصلہ دیتے ہوئے یہ ہی راہ اختیار کی ہے کہ یہ آئین و قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے۔
بعد از فیصلہ (غیرحتمی) لمحوں میں تشکیل پانے والے قومی سیاسی منظر کا یہ پہلو بہت پیچیدہ ہے کہ ایک طرف قانون کی بالادستی سے منسلک یہ سوال ہے کہ حکومت مخالف سیاسی جماعتیں اپنے وعدے وعید کے مطابق فیصلے کوتسلیم کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے ہاتھوں تفتیشی مرحلے کی کڑی نگرانی کریں اور دوران تفتیش ہونے والے بے قاعدگیوں اور خطرناک و خدشات کو کھل کر قوم کے سامنے لاتے جائیں، دوسری جانب فیصلے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے اگر وہ اپنے زور دار سیاسی دبائو سے فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹ بن جاتے ہیں تو ان کی اخلاقی پوزیشن بھی اس طرح مجروح ہوگی کہ ان کا یہ رویہ ان کے فیصلے پر سر خم تسلیم کرنے کی یقین دہانیوں سے متصادم ہوگا۔ یہاں وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ (جو اخلاقی حوالے سے بنتا تو ہے) کرنے والی سیاسی جماعتوں کا بھی امتحان شروع ہے کہ وہ ’’بری طرح پھنسے‘‘ وزیراعظم کے خلاف جے آئی ٹی کی دوران تفتیش کڑی نگرانی اوراپنے ذمہ دارانہ سیاسی ابلاغ سے، کس طرح ’’مزید تفتیش‘‘ کے جال میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کو جال میں پھنسا کر ’’پکا کام‘‘ کرانے کی اہل ہیں۔ واضح رہے اس راہ سے نحیف ریاستی ادارے ایک دم مطلوب حد تک مستحکم ہوں گے۔ جلسے جلوس اور سیاسی اتحاد کے زور سے پیدا ہونے والےخلل سے اگر عدالتی پروسیجر ڈسٹرب ہوگیا تو انسداد کرپشن کے عظیم ایجنڈے کے خلاف کام پکا نہیں ہوگا‘‘ وما علینا الاالبلاغ



.
تازہ ترین