• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
20اپریل کے دن کا آغاز ہوچکا تھا۔گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ سیاسی حدت میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔شاہراہ دستور پروزیراعظم نوازشریف کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔اقتدار کے بااثر ایوانوں میں گہر ا سکوت طاری تھا۔ایوان صدراور اس کے اردگرد گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔سرکاری افسران اور پولیس کے جوانوں کا بدلا ہوا رویہ واضح محسوس کیا جاسکتا تھا۔امروز کابینہ ڈویژن میں معمول کی سرگرمیاں رک چکی تھیں۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کیا ہونے جارہا ہے۔ہر طرف مفروضوں کا بازار گرم تھا۔کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کل کا سورج نوازشریف کے اقتدار کے ساتھ نمودار ہوگا۔مسلم لیگ ن کے ناقدین کا خیال تھا کہ آج مسلم لیگ ن کا اقتدار سورج کے ساتھ ہی غروب ہوجائے گا۔ایوان وزیراعظم میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سر جوڑ کر بیٹھ چکی تھی۔ہر شخص کی نگاہیں ٹی وی اسکرینوں پرجمی ہوئی تھیں۔آئندہ کے لائحہ عمل پر غور شروع کردیا گیا تھا۔مسلم لیگ ن کے ورکرز مٹھائیاں اور احتجاجی بینرز دونوں بنوائے بیٹھے تھے۔دوپہر دو بجے سے قبل یوں لگتا تھا کہ ہر چیز ساکن ہوگئی ہے۔مگر اسی شاہراہ دستور پر ایک عمارت ایسی تھی۔جہاں پر بیٹھنے والے پانچ افراد کو سب کچھ معلوم تھا۔پاناما کیس کا فیصلہ آنے میں 30منٹ باقی تھے تو گھر سے نکلا اور سپریم کورٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔چند ہی منٹ بعد پاک سیکرٹریٹ سے متصل شاہراہ دستور پہنچا تو بتایا گیا کہ راستے مکمل بند کردئیے گئے ہیں۔ریڈیو اسٹیشن کی طرف سے جانے کا کہا گیا۔وقت بہت کم تھا اور ٹریفک کا بے ہنگم رش ہونے کی وجہ سے فاصلہ طویل نظر آرہا تھا۔بہرحال تمام رکاوٹیں عبور کرتا ہواشاہراہ دستور پر قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کے باہر پہنچاتو لوگوں کا بڑا رش تھا۔وکلا،سیاستدان ،صحافی سب کے سب پاناما کیس کا فیصلہ سننے کے لئے امڈ آئے تھے۔خصوصی پاسز کے علاوہ کسی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوا تو ہر طرف پولیس ہی پولیس تھی۔عمارت کو اندر اور باہر سے اسلام آباد پولیس نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔حتی کہ عدالتی کمرہ نمبر 1کے باہر اور اندر بھی پولیس کے جوان تعینا ت تھے۔سپریم کورٹ کی عمارت کے کسی حصے میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔کسی طرح عدالتی کمرہ نمبر1کے اندر تو داخل ہوگیا مگر سامنے کا منظر مکمل دھندلا تھا۔مجھ سے آگے اتنے لوگ تھے کہ صرف معزز جج صاحبان کی آواز ہی میری سماعتوں تک پہنچ پارہی تھی۔
بہر حال جج صاحب کی طرف سے فیصلہ پڑھنا شروع کیا گیا تو پورے عدالتی کمرے میں گہرا سناٹا چھا گیا۔ہر شخص عدالتی فیصلے کو توجہ سے سن رہا تھا۔جونہی جج صاحب نے پڑھ کر سنایا کہ فیصلہ تین ،دو کے اختلاف کے ساتھ آیا ہے۔وزیراعظم نوازشریف نااہلی سے بچ نکلے تھے۔چند ہی لمحوں میں سب کچھ بدل گیا ۔عدالتی فیصلہ مکمل ہونے سے قبل ہی کمرہ عدالت آہستہ آہستہ خالی ہونا شروع ہوگیا ۔تحریک انصاف کے سربراہ کی پریشانی چہرے پر عیاں تھی۔پانامہ کیس کی کارروائی میں پہلی بار تھا کہ وہ ملک بھر کے میڈیا کو نظر انداز کرکے بنی گالہ روانہ ہوگئے۔تحریک انصاف کے صف اول کے رہنماؤں نے بھی اپنے لیڈر کے چہرے کے تاثرات پڑھ لئے تھے۔ کوئی بھی ترجمان میڈیا سے بات نہیں کررہا تھا۔بہرحال بن گالہ جانے کے بعد پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے عمران خان صاحب کو ہمت نہ ہارنے کا مشورہ دیا اور اس کے بعد میڈیا کےکیمروں نے خان صاحب کا دیدار کیا۔بہر حال عدالتی فیصلے کے بعد لوگوںاور سرکاری افسران کے رویوں میں گرگٹ کی طرح تبدیلی نظر آرہی تھی۔ہر شخص دوبارہ وزیراعظم ہاؤس کی طرف دیکھ رہا تھا۔عدالتی فیصلہ سننے کے بعد باہر آیا تو شاہراہ دستور پر چھائی گہر ی خاموشی کا زور ٹوٹ چکا تھا ۔وزیراعظم کو رخصتی کا مشورہ دینے والے عدالتی فیصلے پر تنقید کررہے تھے۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤںکے چہروں پر چھائے ہوئے اطمینان کے تاثرات معاملے کی سنگینی بتا رہے تھے۔کسی نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ گولی وزیراعظم نوازشریف کے کان کو چھوتی ہوئی گزری ہے۔مگر حتمی نتیجہ یہی تھا کہ وزیراعظم نوازشریف ایک مرتبہ پھر بچ گئے تھے۔گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ ہر بحران سے مزید طاقتور ہوکر نکلنے والے نوازشریف کا اس بار بڑا امتحان ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف پھر بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
ارادہ تھا کہ عدالتی فیصلے کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر تفصیل سے لکھوں گا لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں ابھی تک صرف 230صفحات ہی پڑھ سکا ہوں۔مناسب ہوگا کہ پورے عدالتی فیصلے کو پڑھنے کے بعد قارئین کو اپنا تجزیہ پیش کروں۔لیکن ایک بار ضرور کہوں گا کہ جن اکثریتی ججوں نے نوازشریف کو نااہل قرار دینے کی مخالفت کی ہے۔اس کی بنیاد یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان آرٹیکل 184/3کے تحت جو کیس سنتی ہے۔اس میں اپیل کا حق نہیں دیا جاتا۔لیکن اگر عدالت کسی بھی معزز رکن پارلیمنٹ کو آرٹیکل 62,63کے تحت نااہل قرار دیدے تو اسے اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عدالت آرٹیکل184/3کے تحت کیس سنے اور پھر آرٹیکل 62,63کے تحت نااہل قرار دیدے اور متاثرہ شخص کے پاس اپیل کا اختیار بھی نہ ہو۔پاناما کیس چونکہ قانونی سے زیادہ سیاسی تھا۔اس لئے اس پر بہتر رائے تو پورا فیصلہ پڑھ کر ہی دے سکتا ہوں۔لیکن آج جسٹس اعجاز افصل،جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس عظمت سعید داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایسے حسا س کیس میں اصولی موقف اختیار کیا اور تاریخ میں اپنا نام امر کردیا۔یہ فیصلہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جب قانون سے متعلق بین الاقوامی مکالموں میں چھپے گا تو جہاں اس کے چند پہلوؤں پر تنقید ہوگی وہاںان تین ججوں کی رائے عدالت عظمیٰ کی ساکھ کو بچانے کے لئے کافی ہے۔خوشی ہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد تمام فریقین نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا ۔لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کی معزز جج صاحبان کے بارے میںاستعمال کی گئی زبان کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جاسکتا ۔پاناما فیصلہ تین ،دو کے ساتھ آیا ہے۔مگر کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ تین ججز یا پھر دو ججز پر تنقید کرے۔جمہوریت کی مضبوطی اور سویلین بالادستی کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب ملک کی عدالتوں کا احترام کریں اور اپنی تنقیدی رائے دینے کے لئے بھی ایسے الفاظ کا چناؤ کریں جس سے اداروں کا تقدس پامال نہ ہو۔



.
تازہ ترین