• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا ایک بہت عزیز دوست جس کا تعلق عمران خان کی تحریک انصاف سے ہے، اکثر مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور کم میں بھی نہیں کرتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی کڑوی کیسلی باتیں بھی بہت آرام سے سہہ لیتے ہیں اور کبھی ان باتوں کا برا نہیں مانتے کہ جانتے ہیں دونوں کی نیت صاف ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم دونوں ہر وقت کڑوی کیسلی ہی باتیں کریں، ہلکے پھلکے موڈ میں بھی ایک دوسرے کا’’پھلکا‘‘ اڑاتے رہتے ہیں۔ ایک دن میرا یہ شرارتی دوست میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے موڈ میں تھا، کہنے لگا’’یار جب سے تم پیدا ہوئے ہو، میں تمہیں نواز شریف کے ساتھ کھڑا دیکھ رہا ہوں، تم تھکتے نہیں ہو!‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا’’نہیں، جب نوازشریف کسی بحران سے نکل جاتا ہے، میں بیٹھ جاتا ہوں‘‘ اس نے دوسرا سوال کیا’’کیا تمہیں نواز شریف سے بہتر کوئی لیڈر نظر نہیں آتا؟ بندہ کبھی ادھر ادھر بھی نظر ڈال ہی لیتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’اب نظر بازی کی عمر نہیں‘‘بولا’’ میری بات کا سنجیدہ جواب دو‘‘ میں نے عرض کی کہ پھر سیدھا جواب تو یہ ہے کہ تم چاہتے ہو کہ جب نواز شریف کی منتخب حکومت پر شب خون مارا جائے اور ان کے سارے خاندان کو بدترین سزائیں دی جائیں، پریس کے کچھ حصوں میں اس جیسے پاکستانی کو انڈین ایجنٹ تک کی غلیظ گالی دی جائے، ان کے نظریاتی سیاسی رفقا کو بھی کال کوٹھریوں میں بند کردیا جائے، ان پر بدترین مظالم ڈھائے جائیں تو ان حالات میں مجھے چاہئے کہ میں بھی مرغ بادِنما کی طرح یہ اعلان کردوں کہ حضرات ملک میں بادِسموم چلنا بند ہوگئی ہےاور بادِبہاری کا دور شروع ہوچکا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر میرے دوست نے کہا’’میں تمہیں جانتا ہوں تم اس طرح کے شخص نہیں ہو، مگر نواز شریف میں کئی خرابیاں بھی تو ہوسکتی ہیں اور عمران خان میں بھی کچھ خوبیاں تو ہوں گی، مگر تم تو ناک کی سیدھ پر چلتے رہتے ہو،ادھر ادھر دیکھتے ہی نہیں،ایک کالم نگار کو اتنا جانبدار نہیں ہونا چاہئے‘‘ میرا یہ دوست اس مسئلے پر اور بھی بہت کچھ کہتا رہتا ہے اور میرا جواب سنتا رہتا ہے۔ میں نے سوچا آج ایک ہی دفعہ اس کے پسندیدہ موضوع پر اپنا نقطہ نظر پیش کردوں۔
تو دوستو! بات یہ ہے بلکہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میرے نزدیک کسی بھی قسم کی وابستگی غیر مشروط نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی کچھ حدود و قیود ہیں، ان کے اندر رہ کر وابستگی اچھی لگتی ہے لیکن جب یہ وابستگی ہر غلط رویے کو قبول کرنے کی صورت میں ضمیر کا بوجھ بن جائے تو پھر یہ وابستگی نہیں رہتی، سودا بازی ہو کر رہ جاتی ہے، چنانچہ نواز شریف کے ساتھ بھی میری ذہنی وابستگی غیر مشروط نہیں ہے۔ اس وابستگی کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں، سب سے بڑی بات ان کا ویژنری لیڈر ہونا ہے، انہوں نے اپنی ادھوری حکومتوں میں بھی جو کام کئے وہ بہت دور بینی کے تحت کئے، خواہ وہ موٹر وے ہو، خواہ جدید ائیر پورٹوں کی تشکیل اور اب سارے ملک کو سڑکوں اور موٹروے کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑنا، انرجی کے میگا پروجیکٹ، سی پیک کا معاہدہ جسے ساری دنیا گیم چینجر قرار دے رہی ہے، گوادر کی بندرگاہ، بہترین رہائشی پالیسیاں جن کے متعلق غیر ملکی ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں کہ اگر ان پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا تو 2025تک پاکستان ایک بہت بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔ دوسری طرف ہمسایہ ملکوں سے اختلافات ختم کرکے انہیں قریب لانا خصوصاً بھارت سے کشمیر پر غیر لچکدار مذاکرات کی کامیابی پر اسے ایک اچھا ہمسایہ بنا کر بہترین تعلقات قائم کرنا ان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر دوسری طرف وہ بہت اعلیٰ درجے کے انسان بھی ہیں بلکہ انسان دوست ہیں۔ درددل رکھتے ہیں، میں ایسے تین افراد کو جانتا ہوں جو انہیں عمر بھر کبھی ووٹ نہیں دیں گے مگر ان کے کسی موذی مرض میں مبتلا ہونے کی خبر پر نواز شریف کروڑوں روپے ان کے علاج پر خرچ کردئیے۔ نواز شریف بے حد منکسرالمزاج ہیں۔ عام لوگوں کو بھی اس طرح ملتے ہیں جیسے کسی وی آئی پی سے ملا جاتا ہے۔ ہر وقت جلے بھنے نہیں رہتے، میں نے بدترین حالات میں بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان کا بھروسہ مثالی نوعیت کا ہے۔ ماں باپ کی خدمت بہت کم لوگوں نے ان جتنی کی ہوگی۔ اپنے مرحوم والد کی وہیل چیئر اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں وہ خود کھینچتے رہے ہیں اور آج بھی اپنی والدہ کے قدموں ہی میں بیٹھتے ہیں۔ یہی خوبیاں ان کے بھائی شہباز شریف میں بھی ہیں جنہوں نے نواز شریف کی قیادت اور رہنمائی میں پنجاب کو پاکستان کا ایک مثالی صوبہ بنادیا ہے۔ نواز شریف کی دیگر ذاتی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ فولادی اعصاب کے مالک ہیں، جب ان کے پاس تین جرنیل پستول کی نوک پر ایک کاغذ پر دستخط لینے کے لئے گئے تھے تو نواز نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا تھا اور پھر اس کام سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا، "Over my dead body"جب کبھی وہ ’’سیاسی محاذ جنگ‘‘ پر ہوتے ہیں ان سے بڑا فائٹر کوئی نہیں ہوتا، وہ مخالف سے بات کرنے کو تو تیار رہتے ہیں، مگر وہ کسی کے سامنے ہتھیار ڈالنا نہیں جانتے۔ ان کا ایک واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا، جب پرویز مشرف نے انہیں تیس دن تک قید تنہائی میں رکھا، قید تنہائی میں مکمل ا ندھیرا ہوتا ہے، گھڑی، اخبار، ٹی وی کچھ نہیں ہوتا، قیدی کو دن اور رات کے بدلنے کا پتا ہی نہیں چلتا، اسے باہر کی کوئی آواز سنائی ہی نہیں دیتی، کمزور اعصاب والا شخص اس صورتحال میں بآسانی دماغی توازن کھو سکتا ہے، مگر تیس دن بعد جب ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر عدالت میں پیش کیا گیا اور انہیں فرد جرم سنائی گئی کہ ’’آپ پر آرمی چیف کا جہاز ہائی جیک کرنے کا الزام ہے‘‘ تو اس پر نواز شریف نے کہا’’میں نے جہاز ہائی جیک نہیں کیا،بلکہ میری حکومت کو ہائی جیک کیا گیا ہے‘‘ پرویز مشرف انہیں پھانسی چڑھانا چاہتا تھا مگر سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس رحمت جعفری نے تمام تر دبائو، دھمکائو اور ترغیب کے باوجود ایک درمیانی راہ نکال کر وزیر اعظم کو پھانسی کے پھندے سے بچالیا ورنہ بھٹو کے بعد ہماری عدالت کے ماتھے پر یہ دوسرا بدنما داغ ہوتا جو ابھی تک نہیں مٹا اور اس کے بعد تو یہ سیاہی اور گہری ہوجانا تھی‘‘۔
عمران خان کا حامی میرا دوست مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا ساری خوبیاں نواز شریف میں ہیں اور ان کی ذات میں کوئی خرابی نہیں پا ئی جاتی، وہ یہ بھی پوچھتا ہے کہ کیا عمران خان میں تمہیں صرف کمی ہی کمی نظر آتی ہے؟ میں اس کے دوسرے سوال کے جواب میں کہتا ہوں’’مجھے عمران خان میں کوئی کمی نہیں ،بلکہ زیادتی ہی زیادتی نظر ا ٓتی ہے‘‘ جس پر وہ جی کڑا کرکے ہنستا ہے۔ اس کے پہلے سوال کے جواب میں میں اسے بتاتا ہوں کہ نواز شریف میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہاں ان میں خامیاں بھی ہیں، مگر ٹی وی چینلز اور اخبارات کے کالم تو ان کے ناکردہ گناہوں سے بھرے ہوتے ہیں، ہر کوئی چیخ چیخ کر دشنام طرازی کررہا ہوتا ہے، ان دوستوں کے شور شرابے میں مجھے نواز شریف کی خامی بیان کرنے کا اگرچہ کماحقہ موقع نہیں ملتا، مگر مجھے جہاں اپنا اختلافی نوٹ دینا ہوتا ہے وہ میں ہمیشہ دیتا ہوں____ایک دفعہ اسی طرح کے کسی اختلافی نوٹ سے نواز شریف صاحب کو یہ تاثر دیا گیا کہ قاسمی صاحب آپ سے ناراض نظر آتے ہیں، حالانکہ سرے سے ایسی کوئی بات ہی نہیں تھی، میں نے تو صرف اختلاف کیا تھا، مگر نواز شریف کی ادائے دلنوازی کا کرشمہ دیکھیں کہ ایک دن میرے ادبی مجلے ’’معاصر‘‘ کا دروازہ کھلا تو دیکھا کہ وزیر اعظم نواز شریف میرے سامنے کھڑے ہیں، میں حیرت زدگی کے عالم میں اپنی کرسی سے اٹھا، ان سے معانقہ کرکے ان کے برابر والی کرسی پر بیٹھنے لگا تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام کر زبردستی مجھے مرکزی کرسی پر بٹھادیا اور پھر سوا گھنٹے تک ایک عام ملاقاتی کی طرح میرے سامنے دھری ایک ’’بھیڑی‘‘ سی کرسی پر بیٹھے رہے۔ وہ خود گاڑی ڈرائیو کرکے آئے تھے اور بغیر کسی سیکورٹی کے ٹریفک سگنلز پر رکتے ہوئے میرے دفتر تک پہنچے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد سیکورٹی والے ایک سفید رنگ کی کار میں انہیں تلاش کرتے کرتے مجھ تک پہنچ پائے تھے۔ میرے کچھ دوست اس شخص کو’’بادشاہ سلامت‘‘ کہتے ہیں، کیا بادشاہ سلامت ایسے ہی ہوتے ہیں؟
میرا دوست نواز شریف پر اپنے لیڈر کے بیانات کے حوالے سے کرپشن کرپشن بھی کرتا رہتا ہے…وہ کرتا رہے گا، مگر ابھی کل بھی تو آپ سے باتیں ہونا ہیں کچھ باتیں اس حوالے سے بھی کریں گے۔
(جاری ہے)

.
تازہ ترین