• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس، جس کے مطابق 1990ء کی دہائی میں شریف فیملی نے رقم کی مشکوک ترسیل کے ذریعے بھاری جائیداد خریدی، کے مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچ نے دوماہ کی تاخیر سے فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ 2،3کی نسبت سے شریف فیملی کے حق میں قرار پایا۔ تاہم فیصلے سے معاملہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ فاضل عدالت حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لئے مزید تحقیقات کی ہدایت کرتی ہے۔ طویل وقت صرف کرنے کے بعد سامنے آنے والے طویل فیصلے میں بنچ کو منقسم پایا گیا۔ کچھ جج فیصلے میں قانون کی روح کی طرف مائل دکھائی دئیے، جبکہ دوسروں نے آئین کے الفاظ کو مقدم سمجھا۔
فیصلے نے وزیر ِاعظم نوازشریف کو نااہل قرار نہیں دیا، اس کی بجائے اس نے ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے جس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے علاوہ نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے نمائندے شامل ہوں گے۔فاضل عدالت کی ہدایت کے مطابق یہ جے آئی ٹی ساٹھ روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی کہ موجودہ وزیراعظم اور اُن کے دو بیٹوں، حسن اورحسین نواز نے 1990-2005 کے درمیان لندن میں جائیداد خریدنے کے لئے رقم کہاں سے حاصل کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے توقع ہے کہ اب وہ جے آئی ٹی کی جولائی میں پیش کردہ رپورٹ کودیکھنے اور ملزمان پر لگنے والے الزام کا تعین کرنے کے لئے ایک اور کمیشن تشکیل دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں، نواز شریف صاحب ابھی مکمل طور پر بری نہیںہوئے ہیں، اگرچہ پی ایم ایل (ن) فتح کا جشن منارہی ہے۔
اپوزیشن، خاص طور پر پی ٹی آئی، اب کچھ دیگر اہم نکات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اُن کا فوکس اس بات پر ہے کہ دو ججوں نے نواز شریف کو دوٹوک الفاظ میں قصوروار قرار دے دیا، جبکہ باقی تین کا خیال تھا کہ مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اُنھوںنے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران وزیر اعظم کو منصب سے ہٹ جانے کا حکم نہیں دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ججوں کو ایسی قانونی مثال قائم کرنے کے خطرے کا احساس تھا جو آئندہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرسکتی تھی۔ تاہم اس کی وجہ سے اپوزیشن کو اخلاقیات اور شفافیت کے تصورات ارزاں کرنے کا موقع مل گیا۔ کہا جارہا ہے کہ وزیر ِاعظم کو اخلاقی طور پر منصب سے الگ ہوجانا چاہئے تاکہ وہ جے آئی ٹی پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔ درحقیقت اگلے دوماہ کے دوران ہم اس موضوع کو اپوزیشن کے احتجاج کے مرکزی بیانیے کے طور پر دیکھیں گے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ تفتیش کرنے والے سول اداروں کے افسران کی تعیناتی وزیر ِاعظم کرتے ہیں تو پھر وہ افسران ان کے خلاف تحقیقات کس طرح کرسکتے ہیں؟
جے آئی ٹی کی اہم نوعیت کا تعلق اس کے لئے طے کیے جانے والے ٹرمز آف ریفرنس سے ہے۔ اسے سونپا گیا ٹاسک ’’مسٹر شریف اور ان کے زیر ِ کفالت بچوں کے اثاثوں یا ان کے اعلانیہ اثاثوں میں غیر معمولی حد تک پائی جانے والی وسعت کی تحقیقات کرنا ہے ‘‘دوسرے الفاظ میں جے آئی ٹی نے ثبوت تلاش کرنا اور مندر جہ ذیل سوالات کا جواب ڈھونڈنا ہے (1) گلف اسٹیل مل کس طرح قائم کی گئی ؟ (2) اسے فروخت کیو ں کیا گیا؟(3) اس کے ذمے واجب الادا رقم کا کیا بنا؟ (4) اس سے حاصل شدہ رقم کہا ں گئی ؟(5) یہ رقم جدہ، قطر اور پھر برطانیہ تک کیسے پہنچی؟(6) کیا حسن اور حسین اتنی کم عمری میں (1990 کی دہائی کے اوائل میں)اتنے وسائل رکھتے تھے کہ وہ لندن فلیٹس خرید سکتے، نیز کیا قطرسے اچانک آنے والے خطوط حقیقت ہیں یا محض فسانہ ؟(7) نیلسن انٹر پرائیززاور ہل میٹل کا اصل مالک کون ہے ؟(8)فلیگ شپ انسوسٹمنٹ کے لئے صرف ایک بیٹے کے پاس رقم کہاں سے آئی ؟(9) ایک بیٹے نے نواز شریف کو جس بھاری رقم کا تحفہ پیش کیا تھا، وہ کہاں سے آئی تھی ؟ وغیرہ۔
یقیناً جے آئی ٹی کے سامنے کرنے کے لئے کٹھن کام ہوگا۔ اس کے ارکان بیرونی ممالک میں منی لانڈرنگ کی پیچیدگیوں کے فورنسک ثبوت تلاش کرنے کے ماہرین کی شہرت نہیں رکھتے، خاص طور پر جب اُنہیں اس کام کے لئے صرف دوماہ دئیے گئے ہوں۔ اس فیصلے کا سب سے حیران کن حصہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اختلافی نوٹ ہے جس میں فاضل جج صاحب آرٹیکل 62(f)استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم کو نااہل قرار دیتے ہیں۔یہ بات یاد کرنے کی ہے کہ اس سے پہلے جسٹس کھوسہ آرٹیکلز62، 63 کو استعمال کرتے ہوئے ارکان ِ پارلیمنٹ کو نااہل قرار دینے کی کوشش پر ناراض ہوئے تھے۔ تاہم جسٹس اعجاز افضل، جنہوں نے فیصلے کا بڑا حصہ تحریر کیا، کے مطابق سپریم کورٹ آرٹیکلز 62، 63 کو براہ ِراست استعمال کرتے ہوئے ارکان کو نااہل قرار نہیں دے سکتی۔ اس کی بجائے عدالت کویہ معاملہ الیکشن کمیشن کی طرف ریفر کرنا چاہئے۔
نوازشریف کے لئے پریشان ہونے کیلئے بہت کچھ ہے، کیونکہ دو سنیئر ججوں نے اُنہیں نااہل قرار دیا ہے۔ اس سے شاید یہ تاثر بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ عدلیہ بھی عوامی دبائو سے متاثر ہوسکتی ہے۔اسی طرح اُن کے بیٹوں کو بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینا آسان نہیں سمجھنا چاہئے۔اب ان تینوں ( نوازشریف اور ان کے دونوں بیٹوں) کے لئے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر جواب دیں۔ اس جے آئی ٹی کو بھی عدالت کے مساوی تعظیم حاصل ہوگی۔ اب دیکھنا ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کس پیشہ ورانہ مہارت سے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔

.
تازہ ترین