• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رنگ لائے گی تری یہ انتہا پسندی ایک دن!
بھارت،پاکستانی کپڑا بازار پر حملہ، پولیس تماشائی بنی رہی، ایسے روئیے سے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ بھارت کو انتہا پسندی کا فوبیا ہو گیا ہے، اسے چاہئے کہ بروقت اپنا علاج کرائے ورنہ پاکستان کے طبیب اس کا میجر آپریشن کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، اگر بھارت میں پاکستانی کپڑا محفوظ نہیں تو پاکستان میں بھارتی ساڑھیوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، ہماری جانب سے حالات تعلقات کے بہتر نہ ہونے کا ذکر نہ جانے کس امید پر کیا جاتا ہے، حالات ہوں یا تعلقات وہ تو پہلے ہی خرابی کے نقطۂ مختتم پر پہنچ چکے ہیں، جو ایک زیادہ بڑی خرابی باقی ہے بھارت کے انتہا پسند کھتری اسے دعوت نہ دیں، ورنہ ان کا دستر خوان لپیٹ دیا جائے گا، اگر باہمی تجارت ختم کرنا ہے تو یہاں سے اپنا پاندان اٹھا لے، یہ پاکستانی کپڑا بازار پر حملہ بھارتی بازار کی ویرانی کا سبب بن سکتا ہے، شاید بھارت جانتا ہے کہ اس حملے کے باوجود پاکستانی قوم بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی، پاکستانی لیبل والے کپڑوں پر جوتیاں برسانے سے وہ جوتا اوجھل نہیں ہو گا جو کلبھوشن کی شکل میں بھارت کے منہ پر امپلانٹ ہو گیا ہے، بھارت اس وقت انتہا پسندوں کے پنجے میں ہے، وہ بھارت ہی کا منہ نوچ نوچ کر اسے مسخ کر دیں گے، بھارت کے اعتدال پسندوں کو اب آگے بڑھ کر اپنے ملک کو بچا لینا چاہئے، کیونکہ چانکیائی سیاست کے ہتھکنڈے بھارت کے لئے ہتھکڑیاں بن جائیں گے، پاکستان صرف دفاع تک محدود ہے، اور یہ دفاع ایسا ہے کہ بھارتی جارحیت منہ کی کھائے گی، کشمیر سے اٹھنے والے شعلے نئی دلی تک پہنچ چکے ہیں، پاکستانی کپڑا بازار کو آگ لگانے سے بنیئے کو بھی آگ لگ سکتی ہے، جواب آں غزل تو بھارتی مال کی درآمد روکنا ہےمگر۔۔۔
٭٭٭٭
اتنی بد کلامی کیوں؟
خواجہ سعد رفیق نے شیخ رشید کو ماسی مصیبتے قرار دے دیا۔ بھانڈ قرار دینے والا بھانڈ بننے والا دونوں نہ جانے بروز قیامت کہاں جائیں گے، بھانڈ گردی کو معاف کرنا میڈیا نے بھی کافی پروموٹ کیا ہے۔ ہم کیوں اپنی زبان کو بھی نہیں بخشتے اسے بھی نجاست آلود کر دیا، شیخ صاحب ہوں یا سعد رفیق دونوں میں وزیر ہونے اور نہ ہونے کا فرق رہ گیا ہے، فیصلہ آ گیا، وزیراعظم سرخرو ہو گئے، اب جیسے شریف خاندان حالت شکر میں خاموش ہے، اور اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں کر رہا، وزیراعظم وزرا کو بھی خود کو وزیر مان لینا چاہئے اور اپنی اپنی وزارتوں کے کام پہلے سے زیادہ تیز کر دینے چاہئیں، اب یہ ہرزہ سرائیوں کی جگالی کب تک ہوتی رہے گی، اس ملک سے وقار، ادب اور معقولیت کیوں اٹھتی جا رہی ہے، مزاح کی حس ہر انسان میں ہوتی ہے، لیکن گندی زبان استعمال کرنا اور پھر بغلیں بجانا تو تہذیب و اخلاق کے جنازے پر ڈھول بجانے کے مترادف ہے، اس تبرا بازی پر وزیراعظم کی خاموشی اقرار نہ بن جائے، اس لئے وہ اس عمل کو فوری بند کرائیں ۔
کیا باچھیں پھاڑ پھاڑ ہاتھ ہلا ہلا کر بے تکان جو منہ میں آئے کہہ دینا خطابت ہے، خطیب ن لیگ سعد رفیق اب بس بھی کریں، کم از کم مرکزی کابینہ کی عزت و حرمت اور وقار کا خیال رکھیں، ورنہ یہاں طوفان آ جائے گا، جسے قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔
٭٭٭٭
چندہ مہم، مساجد کے لائوڈ اسپیکر سے
قرآن حکیم نے کہا ہے:مساجد، تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہیں، چندے کی بنیاد پر نہیں، مساجد کی تعمیر کے لئے اگر اہل ایمان اپنی خوشی سے کچھ خرچ کرنا چاہیں مال حلال سے تو اس پر کوئی قدغن نہیں، لیکن ہر چھٹی والے دن، سارے اسپیکرز کے فل والیوم کھول کر صبح سے شام تک کسی مذہبی تقریب، جلسے وغیرہ کے لئے علاقے کے مکینوں سے پیسے مانگنا، اللہ تعالیٰ کے گھر کی اہانت ہے، کچھ پیشہ ور مفاد پرستوں نے مذہب کی آڑ میں لوٹنے کا یہ سلسلہ کافی عرصے سے شروع کر رکھا ہے، علاقے کا سکون برباد کرنا تو اپنی جگہ لیکن یہ بار بار پکارنا کہ فلاں نے 10روپے دیئے جزاک اللہ، یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے، اس سے نہایت برا تاثر پیدا ہوتا ہے، ہمارے ہاں اب لائوڈ اسپیکر ایکٹ بن چکا ہے، اس پر عملدرآمد ہو تو کتنی ہی ایسی سماجی تکالیف کا ازالہ ہو سکتا ہے جن کے باعث لوگوں کا جینا حرام ہے، شاید حکومت اس لئے ایسے اقدامات سے پرہیز کرتی ہے کہ کہیں اس کے ووٹرز ضائع نہ ہوں، آخر کب تک ہماری حکومت سیاست اپنی تائید کے لئے کوچہ و بازار میں قانون شکنی کی چھوٹ دیتی رہے گی، مساجد کو اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کنٹرول میں دے دیا جائے تو اس سے ان کے تقدس میں اضافہ ہو گا، ان کا احترام و وقار بڑھے گا، اور ایک مخصوص پیشہ ور طبقہ مساجد کو فرقہ واریت، ذاتی مفاد اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے استعمال نہیں کر سکے گا، دیگر اسلامی ممالک میں مساجد وزارت مذہبی امور و اوقاف کے کنٹرول میں ہیں، مساجد پر اسلامی حکومت وقت کا کنٹرول نہ ہونے سے ہمارے معاشرے میں کئی طرح کی خرابیاں جنم لے رہی ہیں، حکومت نوٹس لے۔
٭٭٭٭
سو سو گناہ کئے عوام کے زور پر
....Oترجمان وزیراعظم:وزیراعظم عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں عوام ہی انہیں ہٹا سکتے ہیں،
عوام تو اپنے بے گناہ تھانے سے نہیں چھڑا سکتے، آخر یہ طرز عمل کب تک تحفظ دے گا؎
سو سو گناہ کئے عوام کے زور پر
....Oپیپلز پارٹی:گالم گلوچ بریگیڈ ذاتیات پر اتر آتی ہے۔
اس ملک میں صرف ذات ہی تو ہے جس کے تحفظ کے لئے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، ملک، قوم، نظرئیے کو کوئی کیا جانے، سارا کھیل ہی ذات سے کرسی تک کا ہے۔
....Oعمران خان:نواز شریف پھنس چکے اب زرداری کی باری ہے،
سچ کہا اب واقعی زرداری کی ’’باری‘‘ ہے، ویسے خان صاحب آپ کو تاحال کوئی واضح کامیابی نہیں مل سکی، خرابی کہاں ہے تلاش کریں،
....Oمریم اورنگزیب:عمران کو شرم آتی ہے نہ ہدایت، ہمیشہ روتے رہیں گے۔ وزیراعظم سرخرو ہوتے رہیں گے،
وزیراعظم آپ کو وزیر نہ بناتے تو آپ خان کو یوں شرم نہ دلاتیں ۔ یہ سارے کرشمے کرسی اور دولت کے ہیں، عمران خان کے رونے پر آپ اس قدر خوش ہیں یہ کیسی خوشی کی بات ہے؟

.
تازہ ترین