• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدالت عالیہ نے بالآخر تاریخی پاناما کیس کا غیر معمولی فیصلہ سنا دیا۔ جس کے بارے میں سارے ملک میں ایک طبقہ بڑا ہی خوش اور دوسرا طبقہ حیران و پریشان ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ فیصلے کے مندرجات کے مطابق بظاہر وزیراعظم اور ان کے خاندان کی ہر لحاظ سے سرزنش کی گئی ہے لیکن قانون کی زبان سمجھنے والے کافی تعداد میں لوگ اس سے متفق نظر نہیں آتے۔ ایسی صورتحال کسی بھی ملک اور خاص کر معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے صحت مند رجحان کی علامت ظاہر نہیں کرتی۔ پاکستان میں تو پہلے ہی یہ عمومی تاثر موجود تھا کہ پاناما کیس اور پھر اس فیصلہ کی تاخیر کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے۔ اب ایسے لگتا ہے کہ فیصلہ آنے کے باوجود یہ صورتحال ویسے ہی رہے گی، بلکہ ہوسکتا ہے کہ منفی اور غیر یقینی ماحول مزید خراب ہو۔ ایسے حالات میں حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کیا وہ مقررہ تاریخ 25مئی کو نئے مالی سال کا بجٹ روایتی میرٹ سے پیش کرسکے گی یا حکومت کو اپنی معاشی حکمت عملی اور بجٹ کے اقدامات کو موجودہ حالات کے تناظر میں بدلنا ہوگا۔ فیصلہ آنے کے بعد اب تک کی صورتحال ایسی ہوتی جارہی ہے جس میں لگتا ہے کہ کئی بنیادی نکات اور نظریات پر اختلافات کے باوجود اپوزیشن کی تمام بڑی اور قابل ذکر جماعتیں کسی ایک نکتہ پر حکومت کی تبدیلی کے ایجنڈے یا نعرے کی بنیاد پر اکٹھی ہو جائیں۔ ایسے حالات میں وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے پاس کون سی چوائس رہ جاتی ہے اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ ملک ایک نئے سیاسی بحران کی طرف جارہا ہے۔ جس کے ہمارے معاشرےنہیں بلکہ معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں پر بڑے ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس کی سزا پہلے تو کرپٹ سیاسی قوتوں کو ووٹ دینے کی صورت میں ملتی ہے اور اب موجودہ حالات خراب ہونے کا نقصان بھی تو انہی کو ہوگا۔ دوسری ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ موجودہ حالات کے حوالے سے ایک خاص طبقہ ان کی ساکھ خراب کرنے کی کوئی حرکت کرتا ہے تو اس سےکس کو فائدہ ہوگا اور ہمارے اداروں کا احترام اور وقار کیسے برقرار رہ سکے گا۔ کسی بھی ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو اس سے ملک دشمن اور ملکی معیشت کے دشمنوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ جن کا ایجنڈا کسی بھی ملک میں غیر یقینی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت اشارے ایسے ہی مل رہے ہیں جس کا ہر سطح پر احساس کیا جانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہے کہ حکومت اور خاص کر وزیراعظم یقینی طور پر مشکل صورتحال سے دوچار ہیں جس کا ازالہ ملک میں مفاہمت اور رواداری کی سیاسی سوچ کو اپنانے سے ممکن ہے۔ وہ چیز فوری طور پر پیدا ہوتی نظر نہیں آرہی۔ 1977ء میں بھٹو صاحب کی ضد کے خلاف بھی اچانک ہوا کا رخ بدلا تھا اور نو ستارے ایک دم منظر عام پر آگئے تھے۔ اِس وقت قوم کے معتبر ترین سیاسی قائدین ایئر مارشل اصغر خان، نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا مفتی محمود اور علامہ شاہ احمد نورانی سمیت کئی قومی سطح کے رہنما تھے۔ جن کی سیاست میں اپنی اپنی پہچان اور سوچ تھی۔ اس کے باوجود چند دنوں میں 9ستاروں کا اتحاد بنا، پھر حکومتی ردعمل سامنے آیا تو کیا ہوا سب کو معلوم ہے۔ اس لئے حکومتی سطح پر بڑی احتیاط اور ذمہ داری سے اپوزیشن کے دبائو کو برداشت کرنے کی سوچ اور روش پر چلنا ہوگا۔ اگر اس حوالے سے ذرا سی بھی ’’جھول‘‘ دکھائی گئی تو نئے مالی سال کے بجٹ کے اعلان اور پھر اس کی منظوری کرانا حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگا۔
ہوسکتا ہے اس سے پہلے نظریہ ضرورت کے تحت بڑی اپوزیشن کا اتحاد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بن جائے جو یا تو وزیراعظم سے استعفیٰ کا دبائو بڑھا دے اور یا پھر ان کی اکثریت خود اسمبلیوں سے ’’واقعی‘‘ استعفیٰ دینا شروع کردے۔ جس سے اخلاقی اور سیاسی طور پر حکومت پر مزید دبائو بڑھ سکتا ہے۔ جس سے سب سے زیادہ کاروباری اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جس کا نقصان عوام کی اکثریت اور خاص کر بے روزگار نوجوانوں اور عام افراد کو ہوگا۔ جو اس امید پر بیٹھے ہیں کہ کئی حکومتی منصوبوں کو تکمیل سے شاید انہیں روزگار ملنے کے مواقع مل جائیں اور دوسرا CPEC کا منصوبہ حالات کی خرابی کی نذر نہ ہو جائے۔ جس پر صرف موجودہ حکومت نہیں بلکہ پورے پاکستان کی معیشت اور سلامتی کا انحصار ہے۔

.
تازہ ترین