• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما دستاویزات سے جڑے پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم مقدمے کے فیصلے کو چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ مٹھائیاں کھانے اور جشن منانے والے دونوں فریقین پر آشکار ہونا شروع ہو گیا کہ ان کے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا ہے۔ اب کوئی اپنی خفت مٹانے کے لئے جے آئی ٹی کو مسترد کرنے کا اعلان کر رہا ہے تو کوئی پانچ سو انچاس صفحات پرمشتمل فیصلے میں چھپی اس گجی مار سے پہنچنے والی تکلیف کو سہلا رہا ہے۔ عوام کے سامنے دونوں فریقین عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں لیکن درحقیقت دونوں سر جھکائے بڑبڑائے بھی جا رہے ہیں کیوں کہ آئینی عدالت کے بعد بہرحال انہیں عوام کی عدالت کے سامنے ہی پیش ہونا ہے جو سیاست دانوں کے لئے سب سے بڑی منصف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمراں خاندان کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے والوں کا داؤ پر کچھ نہیں لگا ہوا تھا، انہیں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی لیکن ان کا پلڑا بہرحال بھاری ہے کیوں کہ پانچ رکنی فاضل بنچ کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کو مہمیز عطا کر دی ہے۔ پونے تین سال سے وفاقی حکومت بلخصوص وزیر اعظم کے خلاف سراپا احتجاج کپتان کو بلاخر ترپ کا وہ پتا ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ آئندہ عام انتخابات تک بھرپور انداز میں استعمال کر سکتے ہیں،جس کی ابتدا انہوں نے جمعہ کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کے اعلان سے باضابطہ طور پر کر بھی دی ہے۔ قطع نظر اس کے سینئر ججز کے اختلافی نوٹس فیصلہ نہیں بلکہ فیصلے کا اقلیتی حصہ ہیں لیکن اس نے عمران خان کو وہ جواز فراہم کر دیا ہے جس کے بل بوتے پر اب وہ کھیلن کو چاند مانگیں گے تو کوئی انہیں انوکھا لاڈلا نہیں کہہ سکے گا۔اب تواکھاڑے کے باہر کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی موقع مل گیا ہے کہ وہ بھی دوسروں کے کئے ہوئے شکار کے ساتھ کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کراکے اپنا حصہ بٹور سکے۔ پاناما فیصلے کے آئینی اور سیاسی مضمرات تو اپنی جگہ لیکن حکمرانوں کے لئےاس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ چور بھی کہے چور چور۔ حکمراں جماعت میں سمجھ بوجھ رکھنے والے چند رہنماؤں میں شامل وفاقی وزیر داخلہ نے تو سابق صدر کی وزیر اعظم پر پھبتی کو قرب قیامت کی نشانی قرار دیاہے اور اپنوں کو بھی نصیحت کی ہے کہ عدالت عظمی ٰکے فیصلے پر مٹھائیاں بانٹنے کی بجائے رہنمائی اور عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ باخبر لوگ ضرور جانتے ہوں گے کہ پاناما فیصلے پر آئینی ماہرین سے تفصیلی بریفنگ لینے کے بعد جناب وزیر اعظم کافی پریشان ہیں بلکہ کچن کیبنٹ میں اختلافی نوٹس پر سخت تحفظات بھی ظاہر کئےگئے ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق ایک فاضل جج کی طرف سے تحریر کئے گئے اختلافی نوٹ میں ماریو پوزو کے شہرہ آفاق ناول گاڈ فادرکے اس جملے کہ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے‘‘کے حوالے پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ بعض آئینی ماہرین نے وزیر اعظم کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اس کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرد یں تاہم یہ تجویز قبولیت کی سند حاصل نہ کر سکی کیوں کہ وزیر اعظم مزاحمت نہیں چاہتے۔ بات مٹھائی کھانے سے شروع ہوئی تھی جو پیدا ہونے والے بچے کے طبی معائنے سے پہلے ہی کھالی گئی کہ آیا لڑکا پیداہوا یا لڑکی ؟ پوچھنا تو بنتا ہے کہ اپوزیشن نے کیا اس عزت افزائی پر منہ میٹھا کیا کہ ان کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات اور تمام شواہد کو عدالت عظمیٰ نے پاناما پیپرز کی نقول،ای میلز اور غیر تصدیق شدہ کاغذات قرار دیا یا انہوں نے اس سچ کی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے میٹھے کا سہارا لیا جس کے تحت قطری خط پر ان کے دلائل کو سنی سنائی باتیں قرار دیا گیا۔ کیا اپوزیشن اس لئے رس گلوں کے مزے لیتی رہی کہ جن تحقیقاتی اداروں کے سربراہان کے رویوں سے عدالت عظمی مایوس ہوئی، فیصلے میں اپوزیشن کو انہی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کی ’نوید‘ سنا دی گئی۔ کیا اپوزیشن رہنما اس لئے ایک دوسرے کو لڈو کھلاتے رہے کہ عدالت عظمی نے یہ تک کہہ ڈالا کہ دستیاب مواد کے تحت مریم نواز کو وزیر اعظم کے زیر کفالت قرار دینے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف وفاقی وزرا کیا اسی عدالت عظمی کے احاطے میں کھڑے ہو کراس لئے ایک دوسرے کے منہ میں گلاب جامن ڈالتے رہے جس کے کورٹ روم نمبر ایک کے دو سینئر ترین ججوںنے چند منٹ قبل ہی ان کے قائد اور وزیر اعظم کو نا اہل کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ منہ میں برفی ڈال کر لیگی کارکنان کیا اس لئے بھنگڑے اور لڈیاں ڈال رہے تھے کہ بنچ میں شامل پانچوں ججز نے ان کے ہر دلعزیز رہنما اور ان کے اہلخانہ کے کاروبار اور اثاثہ جات کے حصول کو مشکوک قرار دیتے ہوئے تفتیش کے احکامات صادر فرما دئیے تھے۔ عدالت عظمی کی ہر سماعت کے بعد اپنی عدالت لگانے والے ن لیگی کیا اس لئے باچھیں کھلائے پتیسے کے چسکے لے رہے تھے کیوں کہ متفقہ فیصلے میں قرار دیا گیا کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے مالی معاملات کی تفصیلی چھان بین کی ضرورت ہے۔ قائد سے وفاداری کا دم بھرنے والے ن لیگ کے رہنما کیا اس خوشی میں جلیبیاں کھاتے رہے کیوں کہ ان کے قائدین عدالت عظمی کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو گئے اور فاضل ججز نے گلف اسٹیل ملز کے قیام سے لے کر حسین نواز کے اپنے وزیر اعظم والد کو کروڑوں روپے کے تحائف دینے تک چودہ سوالات کے جوابات طلب کر لئے۔ کیا وہ اس لئے سوہن حلوے جیسی سوغات سے جی بہلاتے رہے کہ قطری رہنما کے جس خط کو تمام اثاثہ جات کی بنیاد بنایا گیا تھا عدالت عظمی نے اسے حقیقت یا فسانہ قرار دے کراس کی صحت کو مشکوک قرار دے دیا۔ کیا اپنے رہنما کو قائد اعظم ثانی کا لقب دینے والے اس لئے چم چم کے مزے لیتے رہے کیوں کہ عدالت عظمی کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے تمام سویلین اداروں کی استعداد کارپر عدم اطمینان ظاہر کردیا اور عسکری اداروں کے نمائندوں کو شامل کر کے جے آئی ٹی بنانے کی ہدایات دے دیں۔ قائد تیرا ایک اشارہ،حاضر حاضر لہو ہمارا کے بینر آویزاں کرنے والے کیا اس لئے میسو کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتے رہے کیوں کہ اکثریتی فیصلہ دینے والے جج نے بھی تحریر کیا کہ وہ یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ لندن فلیٹس، کاروبار، سعودی عرب کی اسٹیل ملز سے وزیر اعظم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا ہر دم شفافیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے لیگی اس لئے بھالو شاہی کھاتے رہے کیوں کہ تاریخی مقدمے کا تاریخی فیصلہ تحریر کرنے والے فاضل جج نے بھی کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے احتساب کا سامنا اور بے گناہی ثابت کرنے کے بلند و بانگ دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ سیاست کو ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے چناچہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کیلئے اب عمران خان کو اسی آصف زرداری کیساتھ ہاتھ ملانا پڑے گا جسے وہ نواز شریف سے نورا کشتی کرنے والا پہلوان کہ چکے ہیں جبکہ وزیر اعظم اپنے بچوں کے ہمراہ قانون کی سر بلندی کیلئے ماتحت افسران کے سامنے پیش ہونے کا ارفع نمونہ پیش کرینگے۔ اس طرح پاناما فیصلے کے بعد ایک نہیں کئی خوشخبریاں سننے کو مل رہی ہیں جن پر مٹھائی کھانی تو بنتی ہے لیکن ٹھہریں آپ کیا کھانا پسند کریں گے، رس گلے،گلاب جامن،برفی،لڈو،یا پھربھالو شاہی۔

.
تازہ ترین