• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے مختلف ذائقوں کا ایک وقت میں مزہ لینے کی سوچ کیساتھ کبھی نہ کبھی کاکٹیل آئس کریم تو کھائی ہوگی، ممکن ہے اس سے ہمیں خوشی ملتی ہویااطمینان قلب۔ آج میرے کالم کیساتھ صورتحال یہ ہے کہ مجھے کاکٹیل کالم لکھنا پڑرہا ہے، اُسکی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہفتے میں ایک کالم ہوتا ہے دوسرا یہ کہ اس ہفتے اتنے بڑے بڑے واقعات ہوئے جو اہمیت کے حوالے سے اپنی اپنی جگہ نئے کالم کا موضوع ہیں جن میں مردان یونیورسٹی میں توہین رسالت ؐکے نام پر ایک طالبعلم مشال خان کا قتل بھی شامل ہے۔ اب تک جو انکوائری رپورٹس اور حقائق سامنے آئے جن کے مطابق ایک سازش اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے یہ سب کیا گیا۔ اسی طرح ضلع پسرور کی تین خواتین نے ایک گھر میں گھس کر توہین رسالتؐ کے مرتکب ایک اشتہاری کو فائرنگ کر کے مار دیا۔ ان دونوں کیسز میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر لوگ خود قانون ہاتھ میں لیکر منصف کیوں بن رہے ہیں؟ ایک واقعہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہے کہ حیدر آباد میڈیکل کالج کی طالبہ نورین لغاری کے بارے میں خبریں آئیں کہ اُسے اغو ا کر لیا گیا ہے لیکن چند ہی دن بعد اس نے میڈیا کے سامنے آکر یہ اعترافی بیان دیا کہ وہ نہ اغوا ہوئی اور نہ ہی شام گئی بلکہ اپنی مرضی سے لاہور آئی اور گرفتار نہ ہوتی تو ایسٹر کے موقع پر خودکش حملہ کرنیوالی تھی۔سوال یہ ہے کہ کیا حکمرانوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ سوشل میڈیا کس طرح نوجوانوں کی برین واشنگ کر رہا ہے اور اسکے اثر کے تحت کس طرح نوجوان دہشتگردی میں ملوث ہورہے ہیں۔ ایک اور اہم واقعہ سینیٹ سے متعلق ہے جو پاکستان میں پارلیمانی نظام کی وقعت اور اہمیت کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ عوامی ممبران جمہوریت اور ملک کیساتھ کس قدر مخلص ہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سینٹ کے اجلاسوں میں وزرا کی مسلسل غیر حاضری اور کارروائی میں عدم دلچسپی سے تنگ آکر احتجاجاً کام کرنا بند کر تے ہوئے سرکاری پروٹوکول واپس، ایران کا دورہ منسوخ کردیا اور کہا کہ ایوان کا وقار برقرار نہیں رکھ سکتا تو عہدے پربیٹھنے کا مجھے حق نہیں، گو انہوں نے غیر معینہ مدت کیلئے اجلاس ملتوی کر دیا مگر دو روز بعد ہی ایوان میں واپس آگئے تو انکا بڑا پُرپتاک استقبال کیا گیا۔ عوامی نمائندگان کی عدم دلچسپی صرف سینٹ میں ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی ہے، ارکان اور وزرا کا رویہ بڑا ہی غیر سنجیدہ ہے۔
ایک روزہ 36میچز کی پانامہ سیریز کا پہلا فیز مکمل ہوگیا۔ ان میچز کی کارروائی کو سال بھر میں96گھنٹے عدالت عظمیٰ میں سنا گیا لیکن شاید ہی کوئی دن یا لمحہ ایسا گزرا ہو جس میں ملک بھر میں اس پر بحث و مباحثہ نہ ہوا ہو۔ پھر محفوظ کیا گیا فیصلہ 57دن کے بعد سنایا گیا۔ ساڑھے پانچ سو کے قریب صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے 222صفحات جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 187 صفحات کا اختلافی نوٹ، جسٹس گلزار احمد نے 43 صفحات، جسٹس اعجاز افضل نے 44صفحات اور جسٹس عظمت سعید نے 40صفحات لکھے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس اہم ترین کیس کو میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے ون ڈے کرکٹ میچوں کی طرح لیا اور اعصاب شکن کمنٹری کو 20کروڑ عوام پر سوار رکھا۔ جب فیصلہ محفوظ ہوا تو طرح طرح کے تبصرے اور غیر ذمہ دارانہ کمنٹس کئے جاتے رہے پھر اپنی اپنی خواہش اور مرضی کے نہ صرف فیصلے دیئے گئے بلکہ اسکی روشنی میں آنیوالے پاکستان کے نقشے بھی لوگوں کے سامنے پیش کئےگئے۔ شاید دنیا کی تاریخ کا یہ واحد فیصلہ ہے جسے فریقین مدعی اور مدعلیہ اپنی اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ حکمرانوں نے تو ملک بھر میں جشن منایا اور مٹھائیاں باٹیں اور کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ وزیراعظم سرخرو ہوئے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور ق لیگ نے کہا کہ اب تلاشی ہوگی وزیراعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہر کوئی اس فیصلے کو موم کی ناک سمجھتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق موڑنے کی کوشش میں ہے جسکا مقصد صرف اور صرف اپنی سیاست چمکانا ہے۔ حکمراں جماعت نے تو فیصلہ آنے کے تین منٹ بعد ہی تبصرہ کر دیا کہ اب 2018ء کا الیکشن نہ صرف جیتیں گے بلکہ دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر یں گے، اس فیصلے کا ایک ایک لفظ نہ صرف غور طلب ہے بلکہ معنی کے اعتبار سے اپنے اندر سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ نہ صرف تنبیہ ہے بلکہ ایک رہنمائی بھی ہے مگر بے عقل لوگ اپنی آنکھیںبند رکھنا چاہتے ہیں بلکہ 20کروڑ سے زائد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی، لیکن عوام کو ایک سادہ انداز میں اس فیصلے کی روح کوسمجھنا ضروری ہے تاکہ آنیوالے دنوں میں سیاسی شعبدہ بازیوں سے کچھ حد تک محفوظ رہ سکیں۔ یہ فیصلہ جسکے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم ناٹ آئوٹ رہے وزیراعظم کو کلین چٹ مل گئی وہ صادق اور امین ہیں۔ تین ججز نے انہیں ایک طرح سے بری کر دیا تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس فیصلے میں دو سینئر ترین ججز نے یہ کہا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے الیکشن کمیشن اُنکی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے جبکہ تین ججز نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ وہ صادق اور امین ہیں بلکہ تمام ججز اس بات پر متفق ہیں کہ حقائق چھپائے گئے اور جھوٹ بولا گیا اب آئین کی شک 184-3کی تشریح میں سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ دیکر ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مذید موقع دیا ہے۔ پورے فیصلے میں تمام ججز اس بات پر متفق ہیں کہ چیئرمین نیب اور ڈی جی ایف آئی اے پاناما تحقیقات میں ناکام رہے، یہ سوالات اٹھائے گئے کہ گلف ا سٹیل کیسے قائم ہوئی، سرمایہ جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے منتقل ہوا اور قطری خط مسترد کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے نیب، ایف آئی اے، سیکورٹی ایکسچینج،ا سٹیٹ بنک، آئی ایس آئی اور ایم ائی کے سینئر ترین ممبران پر مشتمل جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سات دن میں بنانے کا نہ صرف حکم دیا بلکہ یہ حکم بھی دیا کہ وزیر اعظم، حسن اور حسین نواز اسکے سامنے پیش ہوں جسکا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اندر، اسمبلی فلور پر یا مختلف ٹی وی چینلز پرجو موقف اختیار کیا گیا ہے اُنکے ثبوت فراہم کریں لیکن جے آئی ٹی کے حوالے سے اکثریتی رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ سوائے ایک ادارے ( ایم آئی ) کے تمام ادارے حکومت کے ماتحت ہیں اور وزیراعظم ان اداروں کے سامنے نہیں بلکہ ادارے وزیراعظم کے سامنے پیش ہونگے اور ماضی میںجتنے بھی اس قسم کے جے آئی ٹی بنائی گئیں انکی کارکردگی کوئی زیادہ مثبت نہیں رہی مشترکہ اپوزیشن نے تو جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا ہے۔ گو سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ہر دو ہفتے کے بعد سپریم کورٹ کو رپورٹ دی جائے اور 60دن کے اندر اندر اٹھائے گئے سوالات کی رپورٹ سپر یم کورٹ میںجمع کرائی جائے تاکہ اس کی روشنی میں نیا بنچ تشکیل دیکر کیس کا منطقی فیصلہ ہو سکے۔گو سپریم کورٹ نے ملک میں اسوقت پانامہ کیوجہ سے سیاسی ماحول میں جو کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اسمیں ایک طرح سے ٹھہرائو پیدا تو کر دیا ہے لیکن یہ صرف وقتی ہے اور جب تک حتمی فیصلہ سامنے نہیں آتا، نہ تو عوام مطمئن ہونگے اور ہر سیاسی پارٹی اس فیصلے کو سیاسی دکانداری چمکانے کیلئے اپنے انداز میں استعمال کرتی رہے گی، اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ انپے فیصلے کوہر وقت اپنی نگرانی میں رکھے نہیں تو اسکی حیثیت کاکٹیل آئس کریم سے زیادہ نہیں ہوگی اور معاشرے میں مذید انتشار جنم لے گا!

.
تازہ ترین