• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم آفس جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہو سکتا، ماہرین قانون

اسلام آباد (نور آفتاب) ماہرین قانون کی رائے ہے کہ پاناما کیس میں وزیراعظم آفس جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اثرا نداز نہیں ہو سکتا کیونکہ سپریم کورٹ کا آزاد اور طاقتور بینچ تحقیقات کے پورے عمل کی نگرانی کر رہا ہوگا۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ تحقیقات کے پورے عمل کی مکمل نگرانی کرے گی اور وزیراعظم آفس سمیت کوئی بھی شخص مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے جے آئی ٹی کے اعلیٰ افسران پر اثرانداز نہیں ہو پائے گا۔ معروف وکیل ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ہر قیمت پر اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جے آئی ٹی آزادانہ انداز سے درست سمت میں وزیراعظم آفس سمیت کسی کے بھی دبائو میں آئے بغیر کام کرے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے دونوں ماہرین قانون نے کہا کہ کسی کو اُن فاضل جج صاحبان کی ساکھ پر شکو ک و شبہات نہیں ہونا چاہئیں جنہوں نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جو لندن فلیٹوں، گلف اسٹیل ملز اور آف شور کمپنیوں کے متعلق پوچھے گئے 13؍ سوالوں کا جواب تلاش کرے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکمران مسلم لیگ نون جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون کرے گی اور پوچھے گئے سوالوں کا جواب تلاش کرنے کیلئے شواہد بھی فراہم کرے گی۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی رائے ہے کہ پاناما کیس میں اکثریتی ججوں کی رائے برقرار رہے گی جس کے باعث جے آئی ٹی ارکان کی توجہ ان معاملات پر ہوگی جو تین اکثریتی ججوں نے اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو مطلوبہ وقت دیا ہے لیکن یہ کیس اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ میں اُن ججوں کو سراہتا ہوں جنہوں نے یہ فیصلہ سنایا ہے اور یہ یقیناً کیس کو منطقی انجام تک لیجائے گا۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے حوالے سے واضح احکامات دیئے ہیں لہٰذا اس کے شرائطِ کار (ٹرمز آف ریفرنس) انہی ہدایات کے مطابق تشکیل دیئے جائیں گے اور سپریم کورٹ کا نیا بینچ اُس وقت تک جے آئی ٹی کے کام کی نگرانی کرے گا جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کی نمایاں خصوصیت اس کا ’’واضح ہدف‘‘ ہے جو فاضل ججوں نے جے آئی ٹی کیلئے طے کر دیا ہے اور اب جے آئی ٹی کے ارکان کو چاہئے کہ وہ کھلے دماغ کے ساتھ اپنی تحقیقات شروع کریں کیونکہ سپریم کورٹ نے ارکان کیلئے سوالات طے کر دیئے ہیں جن کا جواب وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ سے پوچھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کا کام آسان کردیا ہے اسلئے اس کے ارکان کو تحقیقات کے دوران کسی طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اب راستہ واضح ہے اور جے آئی ٹی کو چاہئے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے تحقیقا ت کو مکمل کرے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کسی طرح کا فیصلہ سنانے کی بجائے صرف رپورٹ پیش کرے گی کیونکہ اس کی ذمہ داری صرف تحقیقات کرنا اور سپریم کورٹ کے بینچ کو رپورٹ پیش کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا بینچ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا جائزہ لے گا اور اس کے بعد اپنی رائے قائم کرے گا۔ بینچ کے ارکان جے آئی ٹی کے ارکان کو تاخیری حربے استعمال کرنے یا پھر تحقیقاتی عمل کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ پاناما کیس میں مریم نواز شریف فاتح رہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے تمام وکلاء کی بھرپور کوشش کوشش تھی کہ انہیں اس کیس میں گھسیٹا جائے لیکن وہ ناکام ہوگئے اور سپریم کورٹ نے اس ضمن میں ان کے دلائل کو اہمیت نہ دی۔ اپنی رائے پیش کرتے ہوئے سینئر وکیل ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں مختلف اداروں کے تجربہ کار افسران شامل ہوں گے اور جب یہ افسران سپریم کورٹ کی نگرانی میں کام کریں گے تو ان پر کوئی بھی شخص اثر انداز نہیں ہو پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے پاس اختیارات ہوں گے کہ وہ ملک میں کسی کو بھی تحقیقات میں تعاون کی ہدایت کر سکیں لہٰذا توقع ہے کہ جے آئی ٹی اپنے تمام تر وسائل مفصل انداز سے تحقیقات پر خرچ کرے گی تاکہ پاناما کیس کے فیصلے میں اٹھائے گئے سوالوں کا جواب مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور غیر ملکی بینکوں سے معلومات کے حصول کیلئے کوئی معاہدہ نہیں ہے لیکن حکومتِ پاکستان سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ایس ایم ظفر نے کہا کہ جے آئی ٹی کیلئے قانوناً شرائطِ کار کی اصطلاح استعمال کرنا غلط ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی فیصلہ سنانے کا مینڈیٹ نہیں ہے، اس کے  برعکس یہ ٹیم تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے گی۔
تازہ ترین