• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسرا رہائشی پلاٹ،سوشل میڈیا پر معزز جج کو بدنام کرنے کی مہم

اسلام آباد (انصار عباسی)سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس اعجاز افضل خان کے خلاف سوشل میڈیا پر بدنام کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے تا کہ اسلام آباد میں انہیں معمول کے مطابق رہائشی پلاٹ الاٹ کرنے کو پاناما کیس میں ان کے حالیہ اکثریتی فیصلے سے منسلک کیا جاسکے۔ اصل میں جسٹس اعجاز افضل خان کو اس سال جنوری میں حکومت کی پالیسی کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 میں دوسرا رہائشی پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔ انہیں یہ الاٹمنٹ اپنی سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ اور ہاؤسنگ منسٹری کی معاملے پر معمول کے باہمی رابطے کے بعد ملی تھی۔اس وقت سپریم کورٹ کے دو ججز بشمول چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ان سے سینئر ہیں۔ ان دونوں معزز ججوں کو 2013 میں اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 میں دوسرا رہائشی پلاٹ الاٹ کیا جاچکا ہے۔ بدنام کرنے کی مہم میں اس طرح پروپگنڈاکیا جارہا ہے جیسے پاناما کیس کے فیصلے سے چند روز قبل حکومت کی جانب سے جسٹس اعجاز افضل پر خصوصی مہربانی کی گئی ہے۔ تاہم اوپر بیان کیے گئے حقائق اس پروپگنڈے کی مکمل طور پر نفی کرتے ہیں، جس کا بظاہر مقصد جج کو بدنام کرنا اور اکثریتی فیصلے کو بے توقیر کرنا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کو اسلام آباد کے سیکٹرز ڈی 12 اور جی 14 میں دو رہائشی پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے۔ سینیارٹی میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس کھوسہ کے بعد آتے ہیں لہٰذا انہیں پلاٹ پالیسی کے مطابق اور سپریم کورٹ کے ججوں میں اپنی سینیارٹی کی بنیاد پر الاٹ کیا گیا ہے۔حالیہ برسوں کے دوران اور ججوں کے لئے دو پلاٹوں کی پالیسی متعارف کرائے جانے کے بعد سے سابق چیف جسٹس جواد خواجہ وہ واحد استثنی ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اسلام آباد میں دوسرا رہائشی پلاٹ حاصل نہیں کیا تھا۔ قبل ازیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اسلام آباد میں دوسرا رہائشی پلاٹ لینے سے انکار کر دیا تھا،اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری دنوں میں انہوں نے پلاٹ کے لئے درخواست دی تھی۔ تاہم جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کو اب تک دوسرا پلاٹ الاٹ نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پہلے ہی ان کے لئے مختص پلاٹ اس وقت کے سینئر جج جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم کو الاٹ کر دیا تھا۔ 2006 میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے ’’بی پی ایس 22 کے افسران کے لئے خصوصی اعانتی پیکج‘‘ کی منظوری دی تھی، جس کے تحت سول سرونٹس کو اسلام آباد میں ایک کنال کے دو رہائشی پلاٹس دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری نے اس پالیسی کا ازخود نوٹس لیا تھا اور یہ سوال کیا تھا کہ کس طرح ریاست کی زمین ایک منتخب طبقے کو اس طرح الاٹ کی جاسکتی ہے۔ تاہم جنرل پرویز مشرف کی 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد، جب افتخار چوہدری سمیت اعلی عدلیہ کے متعدد ججوں کو برطرف کر دیا تھا تو سپریم کورٹ نے جسٹس ریٹائرڈ عبدالحمید ڈوگر کے تحت از خود نوٹس منسوخ کر دیا تھا اور وفا قی سیکرٹریز ، گریڈ 22 کے افسران کے لئے دو پلاٹس کی پالیسی کی توثیق کر دی تھی۔ اسی دوران اس وقت کی حکومت نے وفاقی سیکرٹریز اور گریڈ 22 کے افسران کے لئے دو پلاٹس کی پالیسی کو سپریم کورٹ کے ججوں تک توسیع دے دی تھی۔ اس وقت سے یہ پالیسی چلی آرہی ہے اور سوائے جسٹس ریٹائرڈ جواد خواجہ کےتمام ججز کو وفاقی دارلحکومت میں ایک کنال کے دو پلاٹس الاٹ کیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجود وزیراعظم نواز شریف نے 2013میں اپنی آمد کے فوری بعد پالیسی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور عدالت کے ججز، وفاقی سیکرٹریز اور گریڈ 22 کے افسران کے لئے دو پلاٹس کے قاعدے کو ختم کرنے کا اشارہ دیا تھا۔تاہم پوشیدہ دباؤ کی وجہ سے انہوں نے پالیسی کی معطلی ختم کر دی تھی اور پالیسی پر دوبارہ عمل شروع کر دیا تھا۔  
تازہ ترین