• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال بہت عام ہے ۔ ہمارے ہاں اکثر ڈاکٹر صاحبان روزمرہ امراض میں ان دواؤں کے تجویز کرنے کو شفا بخشی کا آسان طریقہ سمجھتے ہیں جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں اینٹی بائیوٹک دوائیں بہت محتاط طور پر استعمال کرائی جاتی ہیں۔ اس موضوع پر ایک مفصل اور نہایت معلومات افزاء اخباری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ان دواؤں کا غیر ضروری استعمال مختلف امراض کے بیکٹیریا کے خلاف ان ادویہ کی مزاحمت کو کمزور کررہا ہے جس کے باعث بیماریوں پر قابو پانا روز بروز مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وائرل انفیکشن سے پھیلنے والی بیماریوں میں اینٹی بایوٹک ادویات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ امراض ان کے بغیر ہی اپنی میعاد پوری کرکے ختم ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے بیشتر معالج تمام وائرس بخاروں اور بیماریوں میں اینٹی بایوٹک دوا نسخے میں شامل کرنا لازمی تصور کرتے ہیں ۔وائرل انفیکشن سے ہونے والے امراض ماحول کی آلودگی، غیرصاف پانی کے استعمال، آبادیوں میں کوڑے کرکٹ کی صفائی کا بندوبست نہ ہونے جیسے اسباب سے پھیلتے ہیں ۔ ہماری عوامی بستیوں میں یہ تمام اسباب بافراط موجود ہیں اور ہر طرح کے وائرل انفیکشن کا باعث بن رہے ہیں جبکہ مریض اور معالج دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹی بایوٹک دوا سے ہر قسم کے زہریلے اثرات کو ختم کیا جاسکتا ہے جس کے سبب یہ دوائیں کسی روک ٹوک کے بغیر استعمال کرائی جاتی ہیں۔ اس مشق کا ایک نہایت خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہورہا ہے کہ جراثیمی بیماریوں کے خلاف ان ادویات کی مزاحمت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ اسی بناء پر ملک کے کثیرآبادی والے شہروں میں خاص طور پر ایسے کئی جراثیمی امراض واپس آرہے ہیں جو برسوں سے ناپید تھے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس تشویشناک صورت حال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اینٹی بایوٹک استعمال کے غیرضروری استعمال کی روک تھام کرنی چاہیے اور اس ضمن میں عوام کو بھی مکمل آگہی فراہم کی جانی چاہئے۔


.
تازہ ترین