• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارادہ تو یہ تھا کہ تاریخی فیصلے (پارٹ ون) پر ایک غیرتاریخی سا کالم لکھوں گا اور لکھنے سے پہلے پورا فیصلہ دھیرے دھیرے پڑھوں گا کہ صدیوں یاد رکھے جانے والے فیصلے کو پڑھنے کے لئے بھی مناسب وقت دینا ضروری ہے لیکن جو کاپی مجھے ملی اسے پڑھتے پڑھتے بار بار آنکھوں میں نمی سی آ جاتی سو اب اسے قسطوں میں پڑھوں گا تو کچھ عرض کرسکوں گا۔ تب تک اس پر غور کریں، باقی کالم بعد میں۔(اےپیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات فیصل کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا اور اللہ سے بخشش مانگنا۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ النساء ، آیت 106-105)اے ایمان والو!نہ تو اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہو۔ (سورۃ الانفال، آیت 27)اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملائو اور سچی بات کو جان بوجھ کرمت چھپائو۔ (سورۃ البقرہ ، آیت 46)اے ایمان والو! خدا کے لئے انصاف کی گواہی دینے کےلئے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو، انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔ (سورۃ المائدہ ، آیت 6)اور اب چلتے ہیں دنیاداری اور ’’تیاری‘‘ کی طرف جو (ن) لیگ نے فیصلہ (پارٹ ون) کی آمد کے بعد شروع کردی ہے جس کے تحت وزیراعظم نےرفقا سے مشاورت کے بعد یہ طے کیا ہے کہ آصف زرداری سے مفاہمت کی جائے گی، جماعت اسلامی سے بھی رابطے کئے جائیں گے، مولانا فضل الرحمٰن کو بھی راضی رکھا جائےگا، دیگر مخالفین بھی رام کئے جائیںگے اور آنے والے بجٹ کو بھی زیادہ سے زیادہ متوازن بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ن لیگ والوں کا اصل مسئلہ یہ حکومت نہیں، نسل در نسل آنے والی حکومتیںہیں جن کی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں لیکن یہاں وہ کوہ ِ دانش یادآئے جنہوں نے فرمایا تھا کہ ’’بے شک میں نےاپنے رب کو اپنے ارادوں کےٹوٹنے سے پہچانا۔‘‘ (مفہوم) واقعی دولت اورطاقت پرافادۂ مختتم کےقانون کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ ان معاملات میں یہ قانون یو ٹرن لے جاتا ہے۔ دولت اور طاقت جتنی مل جائے، اسی تناسب سے ان کی ہوس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ ہوس کے مارے ہوئے لوگوں کے پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے لیکن قبر اور صبر کا د رمیانی فاصلہ نہ کوئی قارون ناپ سکا نہ فرعون۔’’فیصلے‘‘ کا ایک فائدہ تو طے ہے کہ مکمل طور پر انجام تک پہنچتے پہنچتے بہت کچھ ’’ایکسپوز‘‘ ہو جائےگا یہاں تک کہ وہ بھی جنہیں محاورے کے مطابق سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی بھی دیکھ نہیں سکتی اور یہی اس مقدمہ، فیصلہ کی اصل کمائی ہوگی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ صاحب نے پچھلے دنوں بہت پتے کی بات کی کہ..... ’’پاکستان کو مضبوط اداروں کی ضرورت ہے‘‘ قوموں کی زندگی میں یہ ایک کلیدی بات ہے کیونکہ جہاں ادارےمضبوط نہیں ہوتے وہاںافراد ضرورت سے کہیں زیادہ مضبوط ہو کر دیوتائوں کا سا روپ دھار لیتے ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں عوام کے مخصوص مفاد و موقع پرست خوشامدیوں کے گروہوں کی وفاداری کا مرکز وطن نہیں وہ افراد بن جاتے ہیں جن میں دولت اور طاقت کا اندھا ارتکاز ہو جاتا ہے۔ اسی لئے میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ شخصیت پرستی دراصل بت پرستی کی بدترین شکل ہے۔ لکڑی ، پتھر یا کسی دھات سے بنائے گئے بت کی پوجا پر یہ بے جان بت زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا ہے کہ خود پر بیٹھی مکھی تک نہیں اڑا سکتا لیکن ’’جاندار بت‘‘ کی پرستش اسے شیطانوں کا شیطان بنا دیتی ہے۔ ایسے ’’فانی شیطان‘‘ انسانی معاشروں کی اخلاقیات سے لے کراقتصادیات تک سب کچھ تباہ و برباد، تہہ و بالا کردیتے ہیں۔ اس کثیر الجہتی بربادی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ادارے اتنے مضبوط ہوں کہ افراد اپنی حدود سے تجاوز کرنا بھی چاہیں تو ممکن نہ ہو اور سسٹم انہیں اُگل کر باہر پھینک دے۔یہاں کیا ہو رہا ہے؟ تماشوں کا تماشا یاصرف تماش بین۔ایک اخباری خبر کے مطابق جس کی ابھی تک کوئی تردید نہیں آئی،پاناما کیس میں نوازشریف فیملی کی قانونی ٹیم پر 33 کروڑ روپے خرچ ہوئے اور وزیراعظم ہائوس نے وفاقی محتسب کو تفصیلات دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔ سبحان اللہ کیا ’’ادارہ‘‘ ہے اور کیا اس کی مضبوطی..... مزید ’’سرخروئی‘‘ درکارہے تو قوم ایسی ہی ایک اورخبر کی مزید دوسرخیاں پڑھ کر سوئی رہے۔’’1977سے 1993 تک شریف فیملی نے کتنا ٹیکس ادا کیا: ایف بی آر دستاویزات‘‘’’1977-78 میں میاں شریف کی سالانہ آمدنی 43ہزارتھی۔ 4ہزار روپیہ ٹیکس ادا کیا‘‘وفاقی محتسب کا بھی ایک ’’ادارہ‘‘ ہے۔’’ایف بی آر‘‘بھی ایک ’’ادارہ‘‘ ہے۔اور وہ سب بھی تو ’’ادارے‘‘ ہی ہیں جن پر پاناما فیصلہ میں عزت مآب جج صاحبان نے تبصرے فرمائے ہیں۔ اسی لئے ’’جے آئی ٹی‘‘ میں شامل ’’اداروں‘‘ میں سوائے ’’ایم آئی‘‘ اور ’’آئی ایس آئی‘‘ کے عوام کو نہ کسی سے کوئی امید ہے نہ دلچسپی..... سارا بوجھ انہی پہ جا پڑا ہے۔

.
تازہ ترین