• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دانا کہتے ہیں کہ زندگی کی کتاب علم کی کتابوں پر بھاری ہوتی ہے اور زندگی سب سے بڑا استاد ہے۔ سچ یہ ہے کہ نہ یہ قول سب پر اپلائی ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی ہر کسی کے لئے سب سے بڑا استاد ہوتی ہے۔ زندگی استاد اُن کے لئے ہوتی ہے جو اپنے تجربات سے سیکھتے، احوال پر غور کرتے، تقاضوں اور تجربات کے سانچے میں ڈھلتے اور مشاہدات کے خزانے اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔ خود روحانی دنیا کا تجربے سے گہرا تعلق ہے۔ روحانی تصرفات یا کیفیات یا انکشافات صرف صاحبان باطن تک محدود ہوتے ہیں جو اپنے قلب کا آئینہ صاف رکھتے اور اپنے خالق حقیقی سے رشتے مضبوط بنانے کے لئے زہد کی منازل طے کرتے ہیں۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ پھر میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اولیاء کرام کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سمندر جتنا وسیع ظرف عطا کیا ہوتا ہے اور وہ جو کچھ دیکھتے اور مشاہدہ کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی قریبی حلقے تک نہیں پہنچتا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُن کے منہ سے نکلی بات جب چند برسوں بعد من و عن حقیقت بن کر سامنے آتی ہے تو ان کے فرمان کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ مقصد یہ کہ روحانی تصرفات صرف مخصوص حضرات کا مقدر بنتے ہیں۔ میں اُن لوگوں کو بھی خوش قسمت سمجھتا ہوں جنہیں ان کیفیات اور تصرفات کا تھوڑا سا علم حاصل ہو جاتا ہے اور وہ خود حقیقت کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جن عالم و فاضل حضرات کو کبھی ایسے صاحب باطن کی محفل نصیب نہیں ہوئی اور جنہیں ان باتوں کا تجربہ نہیں کہ اُن کے منہ سے نکلی ہر بات آج کل پرسوں یا سال دو سال بعد سچ کا روپ دھار لیتی ہے اُن کے لئے یہ سب توہم پرستی اور ڈرامہ بازی ہے۔ یہی فرق ہے ظاہر بیں اور صاحب حال میں۔ ظاہر بیں کتابی علم کے باوجود عمر بھر شک کے مرض میں مبتلا رہتا ہے اور صاحب حال کم دنیاوی حوالے سے کم علم ہونے کے باوجود ’’حال‘‘ تک پہنچ جاتا ہے۔
قرب الٰہی سے فیض یافتہ کسی شخصیت کی روحانی کیفیات اور تصرفات کا ذکر یقین اور عقیدت سے کیا جاتا ہے۔ اور یقین کیجئے کہ اس وادی میں جھوٹ یا غلط بیانی کا نہ کوئی مقام ہے اور نہ ہی ضرورت۔ غلط بیانی کر کے اپنی قبر میں کیوں کوئی انگارے ڈالے گا؟ غلط بیانی وہ کرتے ہیں جن کے اس سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں یا جنہیں اس سے کوئی مالی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ محض عقیدت اور یقین کے جذبے سے ان واقعات کو بیان کرنے والوں کا مقصد صرف اور صرف خلق خدا کی راہنمائی ہوتا ہے۔ خدائی راز سے آگاہی نہ ہی صرف خدمت ہے بلکہ راہنمائی بھی ہے۔ ہمارے ہاں دانشوروں کا ایک بہت بڑا گروہ نہ روحانیت کو مانتا ہے، نہ روحانی دنیا میں یقین رکھتا ہے اور نہ روحانی تصرفات کو قابل اعتنا سمجھتا ہے۔ لگتا ہے کہ اُن کا شاید زندگی بعد الموت پر بھی یقین ڈانوا ڈول رہتا ہے۔ اُن کی ایک قسم خدا، قرآن اور نبی کریم ﷺ پر تو ایمان رکھتی ہے لیکن معجزات نبوی ﷺ کے حوالے سے گومگوں کی حالت میں گرفتار رہتی ہے۔ اگر کسی انسان کو معجزات نبوی ﷺ پر مکمل یقین ہو تو اسے یہ سمجھانا آسان ہوتا ہے کہ اولیاء کرام اور قرب الٰہی سے فیض یافتہ صاحبان باطن کو بھی یہ تھوڑا سا فیض وہیں سے ملتا ہے۔ کچھ حضرات اس زندگی میں جیتے جاگتے یا خواب میںحضور نبی کریم ﷺ کی زیارت کے ضمن میں بھی شک کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ جب معتبر شخصیات کے مصدقہ روحانی تجربات و تصرفات کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد تشکیک کے بادلوں کو صاف کرنا اور لوگوں کو توہمات سے نکالنا ہوتا ہے۔ ان بیانات کا مطمح نظر روحوں کو گرمانا اور دلوں پر پڑی دھول کو صاف کرنا ہوتا ہے۔ اس میں نہ کوئی ذاتی مقصد ملوث ہوتا ہے اور نہ ہی بے لذت گناہ کا ارتکاب کر کے اپنی عاقبت خراب کرنے کا خطرہ مول لینا۔ بابا حضرت بلھے شاہؒ کے بقول علموں بس کریں اور یار۔ مینوں اکو الف درکار۔ دنیاوی علم جب تشکیک کے جراثیم پالنے لگے تو اہل علم اس سے پناہ مانگتے ہیں کیونکہ تشکیک ایک روحانی بیماری ہے جو کبھی کبھی ایمان کی بنیادوں میں بھی جراثیم پیدا کر دیتی ہے۔
کچھ روز قبل میں نے اسی کالم میں یوم اقبال کے حوالے سے علامہ اقبال کے روحانی تصرفات کا ذکر کیا تھا۔ ان کے عینی شاہد علامہ کے خادم خاص علی بخش تھے جو علامہ کی وفات کے بعد کئی دہائیوں تک زندہ رہے۔ اس مرد درویش یا خادم اقبال کو غلط بیانی کی کیا ضرورت تھی؟ علامہ کے مقدر میں جو مقام لکھا تھا وہ انہیں مل چکا تھا۔ خود علی بخش بوڑھے و لاغر ہو چکے تھے۔ دنیا کا ان سے کوئی تعلق و رابطہ نہیں تھا۔ انہوں نے علامہ اقبال کی روحانی زندگی کے حوالے سے وہ چند تجربات علامہ اقبال کی بیٹی، بیٹے اور نواسوں کو بتائے جن کے وہ عینی شاہد تھے۔ علامہ اقبال کی اکلوتی بیٹی منیرہ نے وہ واقعات ٹیلی ویژن پروگرام میں بیان کئے۔ کیا ان ذرائع میں سے کسی کو مبالغے یا غلط بیانی کی ضرورت تھی؟ علامہ اقبال علامہ اقبال ہیں؟ کیا ان واقعات سے علامہ کے قد کاٹھ میں کوئی فرق پڑا یا اس سے کوئی دنیاوی فائدہ وابستہ ہو سکتا تھا؟ مادیت پسند اور عقلیت کے فلسفے میں یقین رکھنے والے ان پر طنزیں چوٹیں کرنے سے باز نہ آئے۔ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید خود ایک فلسفی، محقق، قانون دان اور عالم و فاضل شخصیت تھے اور مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ وہ تحقیق اور مطالعے کے بغیر کسی نتیجے کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ اُن سے بہت سی باتوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن خود انہوں نے اقبال کی مصدقہ سوانح حیات ’’زندہ رود‘‘ میں علامہ اقبال کی حضرت خضر علیہ السلام سے شناسائی اور کشمیر سے آنے والے اس نوجوان کا ذکر کیا ہے جس نے خواب میں نبی کریم ﷺ کو نماز سے قبل اقبال کا پوچھتے دیکھا تھا۔ میں نے اسی کالم سے پیوستہ دوسرے کالم میں ابو الامتیاز ع س مسلم کا ذکر کیا تھا جو 96سالہ زندگی گزارنے کے بعد تقریباً دو سال قبل اللہ کو پیارے ہوئے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری کے دوران دربار رسالت ﷺ کی زیارت کا ذکر کیا ہے۔ میں مسلم صاحب سے نہیں ملا لیکن ہمارے کئی کالم نگار اور لکھاری ان کے قریب رہے۔ اس زاہد و عابد انسان کو مبالغے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ لیکن تشکیک زدہ صاحبان قلم ان روحانی تجربات کو پیری مریدی کی جانب لے گئے اور سرگودھا کے خود ساختہ قاتل پیر سے رشتہ جوڑنے لگے۔ روحانیت کی روشنی ہی سے توہمات سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے اور روحانیت ہی سے سچے اور جھوٹے کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ تعویز گنڈے اور پیری کا کاروبار کرنے والے مجرم ہیں اور ان کا روحانی شخصیات سے موازنہ ہی بے ادبی ہے۔ کیا حضرت علی بن عثمان ہجویری اور بابا فرید یا حضرت معین الدین چشتی پیر تھے؟ قلم سے طنزوں کے تیر چلانے والے صرف یہ ذہن میں رکھیں کہ سچا ولی اللہ شریعت کا پابند، سیرت نبوی ﷺ کا پیرو اور قرآنی احکامات کا غلام ہوتا ہے اور اس دنیا میں پیری مریدی کی تجارت یا دکان اور تعویز جادو گنڈے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ خدمت خلق، حسن اخلاق، انسانیت سے محبت اور نگاہ کی دنیا ہوتی ہے۔

.
تازہ ترین