• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر امین مغل لندن میں رہتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو فیس بک کا کہ وہ صبح سے رات تک پاکستان میں ہی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے میرے ایک تبصرے پر لکھا ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں پاناما کے سوا‘‘۔ مگر ہمارے افسانہ نگار، نقاد استاد اور ادبی رسالے ’’دنیا زاد‘‘ کے ایڈیٹر آصف فرخی کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بالزیک کا ناول ’’بڈھا گوریو‘‘ یاد آ گیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اس فیصلے میں جہاں ماریو پوزو کے ناول گاڈ فادر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم ہوتا ہے، تو دراصل یہ جملہ ’’بڈھا گوریو‘‘ کا ہے۔ اور انہوں نے وہ پورا جملہ انگریزی میں نقل بھی کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان دنوں ہماری قوم کا اصل دکھ پاناما اور اس کا وہ فیصلہ ہی ہے جس کے بعد لاہور بار ایسوسی ایشن نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر میں یہاں اپنے یا قوم کے غم کا ذکر نہیں کرنا چاہتا بلکہ اپنی وہ خوشی آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں جو پاکستان بک فائونڈیشن کے قومی کتاب میلے میں شرکت سے حاصل ہوئی ہے۔ میں تو اسلام آباد والوں کو مبارک باد دینا چاہتا ہوں کہ آپ کو عید، بقرہ عید کے علاوہ بھی ایک اور تیوہار مل گیا ہے۔ یہ تیوہار ہے پاکستان نیشنل بک فائونڈیشن کا سالانہ قومی کتاب میلہ۔ کتاب میلے اور ادبی جشن اور بھی ہوتے ہیں لیکن یہ کتاب میلہ ہر اعتبار سے ایک تیوہار ہوتا ہے۔ کتاب کا پرچم لہرایا جاتا ہے۔ کتاب کے اعزاز میں بچوں کی پریڈ ہوتی ہے۔ کتاب کا ترانہ گایا جاتا ہے۔ ہمارے دوست عقیل روبی مرحوم کتابوں کا ایسا ترانہ لکھ گئے ہیں کہ جب تک یوم کتاب منایا جائے گا وہ ترانہ گایا جاتا رہے گا۔ اس میلے کے افتتاح کے موقع پر جو جذبہ اور جوش نظر آتا ہے وہ تین دن جاری رہتا ہے۔ پاک چائنا فرینڈ شپ کی وسیع وعریض عمارت تین دن رنگ برنگے کپڑے پہنے بچوں، عورتوں اور مردوں کے ہجوم سے ایسی بھری رہتی ہے کہ عام محاورے میں ہی نہیں بلکہ سچ مچ کسی بھی جگہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اور یہ ہجوم اور یہ گہما گہمی صرف بڑے ہال یا ان مقامات پر ہی نظر نہیں آتی جہاں بچوں اور ان کی مائوں اور بڑے بھائی بہنوں کی دلچسپی کے کھیل تماشے یا بچوں کی کتابیں ہوتی ہیں، بلکہ ان اجلاسوں میں جہاں نہایت ہی سنجیدہ اور ادق ادبی اور ثقافتی موضوع پر گفتگو ہوتی ہے، وہ کمرے بھی ٹھسا ٹھس بھرے ہوتے ہیں۔ اب آپ اس کی وجہ جاننا چاہیں گے کہ ایسا کیوں ہوتا؟ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ بچوں کی مائیں اور ان کے ابا جو اپنے بچوں کو خوش کرنے کے لئے وہاں آتے ہیں وہ ادبی اور ثقافتی بحث مباحثے سننے کے لئے ان کمروں کا بھی رخ کرلیتے ہیں جہاں ہمارے سوچنے سمجھنے والے بڑے بڑے دماغ علمی اور فکری گتھیاں سلجھا رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ گویا کھیل تماشے کے راستے بچوں اور ان کے والدین کو کتابوں اور کتابیں لکھنے والوں تک پہنچنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اب جہاں تک اس میلے میں کتابوں کی دکانوں کا تعلق ہے تو یہ دکانیں دوسرے ادبی میلوں میں ہوتی ہیں۔ لیکن وہاں چھوٹی عمر کے بچے یا لڑکے لڑکیاں اتنی نہیں ہوتیں جتنی یہاں ہوتی ہیں۔ اس لئے اس میلے میں کتابیں زیادہ خریدی جاتی ہیں۔ یعنی یہاں کتابوں تک رسائی کا زیادہ موقع ملتا ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ میں قومی کتاب میلے میں بچوں اور ان کے والدین کا ہی ذکر کئے جا رہا ہوں، یہ نہیں بتاتا کہ باقی جو ادبی اور ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں وہ کیسے ہوتے ہیں؟ نئی نظم پر ایک پروگرام ہوا۔ افسانے پر پروگرام ہوا۔ نئی نظم کی بات ہوتی ہے تو لامحالہ نثری نظم کا ذکر آ جاتا ہے اگرچہ اس اجلاس میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ نثری نظم ابھی اپنی جگہ بنا رہی ہے جس پر کشور ناہید بہت ناراض ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نثری نظم اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ اور اس صنف میں بہت اچھی نظمیں لکھی جا رہی ہیں۔ وہاں کشور ناہید، اصغر ندیم اور دوسرے نئے شاعروں نے جو نثری نظمیں سنائیں وہ اپنے موضوع اور اپنے اسلوب میں بالکل ہی نئے رجحان کی عکاسی کرتی ہیں۔ روش ندیم نے تو اپنی نظم میں جو الفاظ اور جو اصطلاحیں اور استعارے استعمال کئے وہ ہماری آج کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زبان اور استعارے ہیں۔ البتہ اس گفتگو میں ایک کمی رہ گئی، جس کی طرف کشور نے اشارہ بھی کیا۔ وہ کمی یہ تھی کہ ساری بحث میں صرف اسلام آباد اور پنجاب کے شاعروں کا ہی حوالہ دیا گیا حالانکہ نثری نظم کی ترویج میں کراچی کا بہت نمایاں حصہ ہے۔ قمرجمیل سے لے کر ذی شان ساحل ،افضال سید، تنویر انجم اور عذرا عباس تک شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے نثری نظم کو ایک مستند صنف سخن بنایا ہے۔ اس حوالے سے مبارک احمد کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اگرچہ کراچی والے یہ سہرا اپنے سر باندھتے ہیں کہ نثری نظم کے باوا آدم قمر جمیل ہیں۔ لیکن تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ اعزاز اصل میں مبارک احمد کا ہے۔ مبارک احمد وہ شاعر ہیں جنہوں نے میراجی کے ساتھ بھی وقت گزارا تھا۔
اب رہی افسانے کی بات، تو اس کتاب میلے میں نئے افسانہ نگاروں کو متعارف کرایا گیا۔ اور یہ نہایت ہی خوش آئند تبدیلی تھی، ایسے میلوں اور جشنوں میں پرانے یا زیادہ جانے پہچانے افسانہ اور ناول نگاروں پر ہی پروگرام کئے جاتے ہیں لیکن یہاں ان نئے افسانہ نگاروں کو متعارف کرایا گیا جن کی کتابیں حال ہی میں چھپی ہیں۔ ان لکھنے والوں کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنے فن کے بارے میں خود بات کریں۔ انہوں نے جہاں اپنے فن کے بارے میں باتیں کیں وہاں یہ شکایت بھی کی کہ پرانے لکھنے والے اور ادب کے نقاد انہیں نہیں پڑھتے۔ لیکن ہمارے افسانہ نگار اور نقاد حمید شاہد اور رسالہ ’’مکالمہ‘‘ کے افسانہ نگار اور شاعر ایڈیٹر مبین مرزا کو ان سے اتفاق نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اچھی تخلیق اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے۔ آپ اچھا لکھیں گے یا لکھیں گی تو ہر معیاری رسالہ آپ کو چھاپے گا۔ اس طرح آپ خود بخود ادب کے سنجیدہ قاری اور نقاد تک پہنچ جائیں گے۔ اس میلے میں ایک اجلاس کتاب خوانی کا بھی ہوتا ہے بلکہ ایسے دو اجلاس ہوئے۔ کئی لکھنے والوں نے اپنی تحریریں پڑھیں۔ ایک آدھ دوسروں کی تحریر بھی پڑھی گئی۔ مجھے تو خوشگوار حیرت عکسی مفتی کی تحریر پر ہوئی۔ انہوں نے اپنے والد ممتاز مفتی اور اپنے نام کے حوالے سے ایسی شگفتہ تحریر پڑھی کہ ساری محفل کو زعفران زار بنا دیا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ان کی یہ ابتدائی تحریریں نہیں پڑھیں۔ بعد میں انہوں نے جو سنجیدہ موضوع پر لکھا ہے میری رسائی اسی تک رہی۔ اسی محفل میں معلوم ہوا کہ سیاسی موضوع ہمیں سب سے زیادہ بھاتا ہے۔ اصغر ندیم سید نے سیاسی جبر پر اپنی دو نظمیں سنا کر یہ ثابت بھی کر دیا۔ ایک اجلاس میں ترجمہ زیر بحث آیا۔ یہ بحث زاہدہ حنا کے افسانوں کے انگریزی ترجمہ کے حوالے سے ہوئی۔ یہ ترجمہ شاہ بانو نے اپنے اشاعتی ادارے سے چھاپا ہے۔ اور چند افسانوں کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا ہے۔ عامر حسین انگلستان میں رہتے ہیں۔ انگریزی میں افسانے لکھتے ہیں۔ چند افسانے انہوں نے اردو میں بھی لکھے ہیں۔ لندن کے اخباروں میں کتابوں پر تبصرے بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس ترجمے کے بارے میں بات کی اور ان ترجموں کو سراہا۔ مجھے تو حیرت اور خوشی اس بات پر تھی کہ زاہدہ کے ایک افسانے کا ترجمہ فیض صاحب نے کیا ہے۔ وہاں یہ بات بھی سامنے آئی کہ آخر ہم اردو افسانوں اور ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ کیوں کراتے ہیں؟ کیا انگریز اور امریکی ہمارے یہ ترجمے پڑھتے ہیں؟ اور پاکستان میں انہیں کون پڑھتا ہے؟ لیکن یہ سوال شاید پندرہ بیس سال پہلے تک تو کوئی معنی رکھتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب یہ اچھی بات ہے یا بری۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں اب وہ نسل پیدا ہو گئی ہے جو انگریزی ہی پڑھتی ہے۔ ان کے لئے ہی ہمیں اردو ناول اور افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہئے۔ بہرحال باتیں تو بہت ہیں لیکن کالم کا دامن اتنا وسیع نہیں ہے کہ تمام پروگراموں کا احاطہ کیا جائے۔ اب آخر میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو مبارک باد دینا ضروری ہے کہ یہ تیوہار انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔

.
تازہ ترین