• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ )
جیسا کہ میں نے اس کالم کی گزشتہ روز کی قسط میں بتایا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ میری وابستگی غیر مشروط نہیں ہے ۔ وہ اس وقت تک میرے وزیر اعظم ہیں اور مجھے محبوب ہیں جب تک پاکستانی عوام ان کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور میں ذاتی طور پر بھی محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ان کی محبت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہے ۔ 2013ء کے الیکشن سے اب تک جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں ان کی مقبولیت کا گراف اوپر ہی اوپر گیا ہے اور 2018ء کے انتخابات میں یہ گراف اپنی آخری حدوں کو چھوتا نظر آ ئے گا جس کا مطلب پاکستانی عوام کا ان پر اعتماد کا اظہار ہے ۔ میرے مشروط اعتماد کا اندازہ اس سے لگائیں کہ میں ان کے ضیاء الحق کے دور کو OWNنہیں کرتا، میں اس وقت سے ان سے قوم کی رہنمائی کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہوں، جب وہ جمہوری قدروں کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر سامنے آئے اور شدید مصائب برداشت کئے ۔
میں نے گزشتہ کالم میں اپنے ایک عزیز دوست کا ذکر کیا تھا جو نواز شریف کے بارے میں اپنے وہی خیالات رکھتا ہے جو اس کا نابالغ لیڈر نا بالغ ذہنوں میں بیجنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ وہ میاں صاحب کے حوالے سے کرپشن کا ذکر تو بہت کرتا ہے، ثبوت کوئی نہیں دیتا۔ متذکرہ لیڈر اور ہمارے میڈیا کا ایک حصہ نواز شریف کو آصف زرداری بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے مگر زرداری تو اپنے کئے کی وجہ سے سیاست سے تقریباً آئوٹ ہو گئے ہیں ۔ نواز شریف کو دھرنوں، الیکشنوں اور دیگر حربوں سے ہٹانے کی ساری کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہوئیں چنانچہ خدا خدا کرکے اگر پاکستانی عوام کو ایک سیاست دان مدبر نظر آیا ہے اس کی کردار کشی کرکے اسے عوام کے دلوں سے نکال دیا جائے مگر یہ کوشش بھی کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔ عدالت میں جو ’’ثبوت ‘‘ پیش کئے گئے وہ اخباری تراشوں کے تھے اور بقول ایک فاضل جج کے ان میں پکوڑے ہی بیچے جا سکتے ہیں !
مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ شریف برادران نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیوں نہیں کیا کہ جس جائیداد کا حساب آپ مانگ رہے ہیں وہ جائیداد نہیں ورثے میں ملی ہے جبکہ کسی بھی شخص کی وفات کے بعد اس کے سارے کھاتے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ بلکہ یہاں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ مختلف تھی ۔ میاں محمد شریف مرحوم و مغفور کی زندگی میں انہیں ٹارچر سیل میں بند کیا گیا ۔ ایک ’’قومی رہنما‘‘ جو اس وقت ڈائریکٹر ایف آئی اے تھے انہیں ان کے دفتر سے انتہائی اہانت آمیز انداز میں گرفتار کرکے لے گئے تھے ۔بھٹو دور میں ان کی فیکٹریاں ضبط کر لی گئیں، کاغذات ادھر ادھر ہوئے، بے نظیر دور میں بھی انہیں پراپر طریقے سے کام نہیں کرنے دیا گیا ، مشرف نے تو ظلم و ستم کی انتہا کر دی، سارے خاندان کو قید کرلیا۔ ان کے ڈائریکٹر فنانس مختار حسین پر بھی بدترین تشدد کیا گیا اور کہا گیا حساب میں کی گئی ساری گڑبڑ سامنے لے آئو ورنہ یہاں سے تمہاری لاش ہی جائے گی۔ مگر کچھ ایسی بات ہوتی تو سامنے آتی فلیٹ بھی میاں شریف مرحوم کے دور میں خریدے گئے تھے جدہ میں فیکٹری بھی انہوں نے لگائی تھی اب آپ اس کا حساب ان کی تیسری نسل سے لے رہے ہیں مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی ۔
آپ نے اگر حساب لینا ہے تو وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا احتساب ان کے گزشتہ ادوار حکومت سے شروع کریں جن میں کھربوں روپے کے فلاحی منصوبے شروع کئے گئے ہیں ۔مگر آپ ان میں بھی ایک پائی کی کرپشن تلاش نہیں کرسکیں گے ۔ یہ سب کام انتہائی شفاف طریقے سے کیا گیا ہے اس بات کا سب کو علم ہے مگر ’’چور چور ‘‘ کا شور مچا کر کچھ لوگ اس ’’رولے گولے ‘‘ میں اپنے آپ کو عوام کی نظروں سے اپنی کرتوتیں اوجھل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں !
یہ عجیب دور آ گیا ہے آپ جس شریف آدمی کے منہ پر کالک ملنا چاہیں سوشل میڈیا پر یا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جائیں اپنا ہاتھ کالک سے بھریں اور دوسروں کے منہ پر مل دیں ۔ کوئی آپ کو پوچھنے والا نہیں .....میں فاضل جج صاحبان کے فیصلے کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا، لیکن وہ بھی ذرا سوشل میڈیا پر جائیں اور دیکھیں پانچوں ججوں کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے کیا اس بنیاد پر ان کے خلاف بھی کسی عدالت میں جایا جاسکتا ہے اور ایک سال تک پوری قوم کو بے سکون کیا جا سکتا ہے ؟ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ قوم کا ایک طبقہ تماش بین بن گیا ہے ۔ گالی سننا اور گالی دینا ان کی خوراک بن گئی ہے کچھ کو تو اس حوالے سے اسہال کا مرض لاحق ہو گیا ہے چنانچہ وہ ہر وقت خود بھی گندگی میں اٹے رہتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھے لوگوں کو بھی ناک پر رومال رکھنا پڑتا ہے ۔ کسی کو اس بات کا خیال نہیں کہ ہر دور میں وزیراعظم نواز شریف کو انڈر پریشر رکھ کر ملک و قوم کی ترقی میں کیسے روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں ۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ نواز شریف قوی اعصاب کا مالک ہے، خطرات کا مقابلہ کرنا جانتا ہے وہ تو بے نظیر کی شہادت پر ایک مشتعل مجمع میں جہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا بلاخوف ہسپتال پہنچ گیا تھا ۔ وہ غریبوں کی دعائیں لینے والا شخص ہے اس نے ملک سے سائیکل رکشہ جیسی غیر انسانی سواری کا خاتمہ کیا محصول چونگی کا سسٹم ختم کیا گزشتہ دور حکومت میں غریبوں کے لئے فلیٹ بنائے جو مشرف نے امیروں کے پاس بیچ دیئے۔ مزدوروں کے لئے ہسپتال بنائے جہاں لا محدود بل حکومت ادا کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ ذاتی جیب سے دونوں بھائی کروڑوں روپے مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں ۔انرجی کے میگا پراجیکٹس تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔ سارے ملک میں موٹر وے کا جال بچھایا جا رہا ہے پنجاب میں غریبوں کو بھی امیروں جیسی سفری سہولتیں دی جا رہی ہیں ۔ کے پی کے ، بلوچستان میں وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں میں صوبائی حکومتوں سے بھرپور تعاون کر رہی ہے ۔ کیا آپ ایسے وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں جو اعلیٰ درجے کا مدبر اور اعلیٰ درجے کا تہذیبی انسان ہے ۔ آپ بدلہ اس سے لینا چاہتے ہیں یا عوام سے، کچھ تو خدا کا خوف کریں۔؟
اور آخر میں، ان دنوں فیس بک پر سیتا وائیٹ کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ اور اسی حوالے سے امریکی عدالتی فیصلے کی فوٹو کاپی وائرل ہو رہی ہے ۔ نواز شریف کو صادق و امین نہ ماننے والے عمران خان وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے سے پہلے اس قانونی دستاویز کے مطابق سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیں اور باقی باتیں اس کے بعد کریں !

.
تازہ ترین