• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہورہی؟
تربت، مہمند میں دہشت گردی،5اہلکار شہید، مادر وطن دہشت گردوں سے پاک کردیں گے، وزیر اعظم۔ ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے، آرمی چیف۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پہلے ضرب عضب اور اب ردالفساد جیسے کامیاب اور وسیع تر آپریشنز کے بعد بھی اگر دہشت گردی کہیں نہ کہیں ہوجاتی ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دہشت گردی کرائی جاتی ہے، کون کراتا ہے، مقاصد کیا ہیں، اب ان سوالوں کا جواب بھی ایک ہی ہے کہ باہر سے پاکستان دشمن قوتیں ہمارے ملک کو انتشار کا شکار بنانا چاہتی ہیں اور آگے بڑھنے کے لئے، بیرونی سرمایہ کاری کے لئے حالات کو سازگار نہیں بننے دیتیں، اگر مرض کی یہی تشخیص ہے تو اس کا علاج اپنی بری، بحری، ہوائی سرحدوں کی کڑی نگرانی میں پوشیدہ ہے، آج مغرب نے اس فارمولے پر عمل کر رکھا ہے اور وہاں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے والے اپنے ملکوں کی سرحدوں کو محفوظ بناچکے ہیں، ہمیں اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں کہ کون کرارہا ہے کیونکہ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دشمن کو دشمنی سے غرض ہے تو ہمیں دشمن کے راستے بند کرنے کی ضرورت ہے، اگر باہر سے کمک مختلف شکلوں میں اندر نہیں آنے دی جا ئے گی تو پاکستان میں دہشت گرد گولہ بارود، اسلحہ، پیسہ کے بغیر نہتا ہو کر اپنی موت مرجائے گا، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اسلحہ کس ساخت کا ہے، کیا باہر کا ہے یا اندر بھی اسلحہ سازوں سے خریداجارہا ہے اور سدباب کے لئے ملکی اسلحہ سازوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی کہ ان سے کون اسلحہ خریدتا ہے، ہر خریدار کا تعاقب کیا جائے، اگر ہم ’’والوز‘‘ بند نہیں کریں گے تو پانی کہیں نہ کہیں مار کرے گا، ہم نے آج تک اس کے باوجود کہ ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے، مگر کسی شہری کو دہشت گردوں کی تلاشی کرتے نہیں دیکھا، لوگ اپنے مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں فرصت ہی نہیں خیال ہی نہیں کہ ان کے آس پاس گلی محلے میں کون کون ہے اور وہ کیا کرتا ہے اس کے لئےہمیں مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
ایک سوال ایک جواب
جہاں برائی کو برائی مانا جائے، منوانے کی کوشش کی جائے، وہاں خوشگوار تبدیلی کے لئے فضا ساز گار ہوتی ہے۔ اب ضرورت سے زیادہ دولت رکھنے والے کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ اس کا ہاتھ ضرور کالا دھن لگ گیا ہے۔ یہ ہے اس سوال کا حقیقت پسندانہ جواب جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی اچھائی کی توقع کی جاسکتی ہے یا نہیں اور اگر جواب کو مزید اطمینان بخش بنانا ہو تو پاکستان کے عوام حالات میں خوشگوار تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ سوال ان سے کیا جاسکتا ہے کہ کیا وہ اپنی حالت بدلنے کا کوئی حتمی ارادہ رکھتے ہیں یا موجودہ سیناریو پر عبور رکھنے والوں کے پاس مسئلے کا حل موجود مانتے ہیں۔ فرانس میں ایک دانشور کے ایک سادہ سے جملے نے انقلاب عوام کے ذریعے پیدا کردیا تھا ہمارے لئے اقبال نے اتمام حجت کردیا اور نہایت مدلل انداز میں عوام کے لئے گائیڈ لائن دے کر رخصت ہوگئے ،مگر عوام کو ان کا پیغام اس انداز میں نہیں پہنچایا گیا جو باعث تبدیلی بن جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب محکم میں حتمی جواب دے دیا کہ وہ اس قوم کی حالت نہیں بدلے گا جسے خود اسے بدلنے کی فکر نہ ہو۔ گیند عوام کی کورٹ میں ہے، مقدمہ بھی ا ن کی عدالت میں ، اب اس کے بعد بار بار دانشوروں سے یہ پوچھناکہ آپ کیا سمجھتے ہیں پاکستان میں بہتر حالات پیدا ہوں گے یا نہیں۔ اپنی حالت بدلنے سے فرار ہے اور اگر یہ صورتحال ہے تو کم از کم ہمارا جواب ہے کہ حالات میں مزید بگاڑ تو پیدا ہوسکتا ہے، بہتر تبدیلی نہیں آسکتی۔ جمہوریت جیسی بھی ہمارے ہاں رائج ہے اس نے قوم کے ہر فرد کو اپنی رائے ووٹ کی صورت دینے کا حق دے دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر اس کا صحیح استعمال ہم نہیں کرتے اور ذات برادری، فرقے اور اپنے پرائے کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں تو قوم کسی بہتر تبدیلی آنے نہ آنے کا سوال خود سے کرکے اپنی ذات سے مکمل جواب بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
کرپشن بمقابلہ کرپشن
نورا کشتی کا لفظ ہماری سیاست، ہمارے سماج اور ہر حلقے میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے،کھل کر کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہاں جرم اس لئے بھی زور پکڑ رہا ہے، مجرم، مجرم سے لڑرہا ہے، جیسے ایک بدمعاش اپنی گلی میں دوسرے بدمعاش کو برداشت نہیں کرتا ایسے ہی ایک کرپٹ دوسرے کرپٹ کو کرپشن کا موقع نہیںدیتا اور ستم ظریفی ہے کہ اس کو سیاست کہا جاتا ہے۔ عدالت میں کوئی بڑا کیس آجائے تو بھی سیاسی دکانیں چمک اٹھتی ہیں۔ اتحاد بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں، شر پر جمع ہونے والے بھلائی نہیں لاسکتے اور ایک حدیث مبارکہ ہے’’ میریؐ امت کی اکثریت برائی پر متحد نہیں ہوسکتی‘‘ اس کا مطلب تو خدانخواستہ یہ ہوا کہ شاید ہم ان کی امت سے خارج ہوچکے ہیں، ورنہ کسی کرپٹ کو زیادہ ووٹ ہی نہ پڑتے، بہرحال ان کا امتی ہونا بہت بڑی اہلیت ہے اسے کھودینا بڑا خسارہ، شیخ رشید اگر پپو یار نہ ہوتے تو کوئی دوسرا بھی پپویار نہ ہوتا اور کوئی کسی کو تنگ نہ کرتا۔ ہم اپنے گھروں میں بھی کسی کے خلاف بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غیبت نہیں کرنا چاہئے اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں فلاں کے گھر میں اس وقت ہم ہی زیر بحث ہوں گے۔ الغرض ہماری نیکی بدی دونوں کی بنیاد برائی پر ہے۔ ہم کسی کا نام کیوں لیں کہ سب کو معلوم ہے کہ کل کے برے آج کے بروں کے مقابل کھڑے ہیں، مگر کس منہ سے؟ ڈھٹائی ہمیشہ حرام کھانے والوں اور گھورنے والوں میں ہوتی ہے، رزق حلال کھانے والے ڈھیٹ نہیں ہوتے، کیا یہ ڈھٹائی نہیں کہ ہمارے ہاں بے تحاشا اور ناقابل یقین حد تک دولت رکھنے والے بڑے دھڑلے سے خود کو پاکدامن کہتے ہیں اور ان پاکدامنوں کو دیکھ کر رزق حلال کھانے والے کہہ سکتے ہیں؎
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
٭٭ ٭ ٭ ٭
گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوئے
٭...مریم نواز، سیاسی مخالفین کو برا بھلا کہیں اور نہ ہی ان کے خلاف بیہودہ باتیں کریں۔
یہ ٹویٹ ذرا لیٹ ہوگیا ہے، جب انسان خوش ہو تو گالیاں کھاکے بھی بے مزا نہیں ہوتا۔
٭...مریم اورنگزیب، عمران خان! آپ روتے اور وزیر اعظم اسی طرح سرخرو ہوتے رہیں گے۔
خان صاحب کے رونے سے مریم اورنگزیب کو اتنا لگائو ہوگیا ہے کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ ان کے رونے کا رونا کئی بار روچکی ہیں، اب چپ بدل بھی لیں!
٭...ہمیں شتر مرغ کی طرح اردگرد کے شہروں کا تو احساس نہیں لیکن دو تین روز سے لاہور میں بجلی کم کم جاتی ہے اور"Come, Come"ہوتی ہے۔
لاہور کی بعض بستیوں میں رات 12بجے تک گھروں کی دیواروں پر زوردار پٹاخوں کی آواز سنائی دیتی ہے، نہ کوئی مکین ڈسٹرب ہوتا ہے اور نہ پولیس، کیمیائی دھاتی ڈور سے شب بھر پتنگ بازی کا چرچا بھی عام ہے مگر اس پر بھی ’’پلس‘‘کا پہیہ جام ہے۔

.
تازہ ترین