• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ آٹھ ماہ سے ہنگامہ خیزیاں ڈھاتا پاناماکیس کا ’’تاریخی‘‘ فیصلہ آگیا،56 دن سے محفوظ صدیوں یاد رکھے جانے والے فیصلے پر دونوں فریق اپنی اپنی کامیابی کے شادیانے بجا رہے ہیں، مٹھایاں کھا اور کھلا رہے ہیں اور عوام دونوں کےدعوے سن سن کر سر درد کی دوا۔ حکومتی وزراء اور ترجمان تو سپریم کورٹ کے احاطے سے وکٹری کا نشان بناتے برآمد ہوئے اور پاناما پیپرز میں نام نہ ہونے کے دعوئوں کے برعکس وزیراعظم اور ان کےخاندان کے ’’بچ‘‘ جانے کو سیلبریٹ کرتے رہے۔ خان صاحب اور ان کے ساتھی گھر پہنچ کر ’’شام‘‘ ہو جانے کے باعث فیصلے کو سمجھے بغیر پہلے ’’مٹھائی‘‘ کھا بیٹھے، صبح اٹھ کر احساس ہوا کہ فیصلہ درست قرار دینا غلط تھا پھر جے آئی ٹی کو ماننے سے انکار اور وزیراعظم سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا، دونوں فریقین عدالت میں اپنے اپنے موقف میں کامیاب ہوئے یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ ہاں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دونوں غیر ارادی مقاصد میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں یعنی اس جنگ میں حکومت کو قانونی اور خان صاحب کو سیاسی فتح حاصل ہوگئی ہے، تاہم کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔
پاناما کیس کا فیصلہ عدالت سے آچکا تاہم عوامی عدالت میں جانے اور فیصلے لینے کے لئے سیاسی ارتعاش میں اضافہ ہو رہاہے، حکومت اور تحریک انصاف سیاسی اکھاڑے میں بھرپور مقابلے کی تیاری کر چکے ہیں، احتجاجی جلسوں، الزامات در الزامات اور زبان درازی کے مظاہر عام نظر آرہے ہیں اس رساکشی کے دوران ایک تیسرا لیکن اہم سیاسی فریق (پیپلزپارٹی) بھی مقابلے میں اپنے تعیں حصہ لینے کے لئے بےاختیار نکل پڑی یہ منظر بظاہر ایک ایسے شخص کی عکاسی کررہا ہے جو بھڑکیلے لباس میں ملبوس، ہاتھ میں رنگا برنگا ہتھ پنکھا پکڑ کر ’’رنگ‘‘ میں ایسے بار بار کیمرے کے سامنے آجاتا ہےتا کہ دونوں کھلاڑیوں کی جاری جنگ سے توجہ ہٹاکر شائقین کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرالے، سونے پر سہاگہ اور ستم ظریفی یہ ہےکہ خود کو ’’استاد‘‘ اور’’صادق وامین‘‘ قرار دے کر دونوں فریق پویلین میں بیٹھ کر چت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، آپ کے سندھ میں ایک دہائی تک کئے گئے چمتکار پر بھی سندھ کے عوام پریشان ہیں کہ اس پر ہنسیں یا روئیں، جیسے کہہ رہے ہیں
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت، دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ۔۔۔!
فیصلہ آنے کے بعد قیاس آرائیاں اور سازشی تھیوریاں بھی مارکیٹ میں خوب بک رہی ہیں، کہیں مقامی وعالمی اسٹیبلشمنٹ تو کہیں حکومتی اثرو رسوخ و ڈیل کی باتیں کی جارہی ہیں، کچھ نظریہ ضرورت اور بعض نظام کو جاری رکھنے کا عارضی انتظام قرار دے رہے ہیں۔ کچھ بھی کہا جائے فیصلہ بہت واضح ہے، یہ دو تین کا نہیں بلکہ پانچ صفر کا متفقہ فیصلہ ہے، 5 رکنی فاضل بینچ نے الزامات سے بری کرنے کی بجائے وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں کے خلاف جےآئی ٹی بناکر مزید تحقیقات کا حکم دیا ہے، دوماہ میں 13تکنیکی سوالات کےجوابات طلب کئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جے آئی ٹی کی تحقیقات کی کبھی حوصلہ افزا اور فیصلہ کن نتائج کی روایت نہیں ہے، اب بھی ماہرین کی رائے میں حکومتی ماتحت افسران کی غیر متنازعہ جے آئی ٹی بن بھی گئی تو سپریم کورٹ کے دیئے گئے 60دن کی ڈیڈ لائن میں تحقیقات کیسے مکمل ہوں گی؟ جے آئی ٹی کو ٹھوس ثبوت درکار ہوں گے، منی ٹریل کے لئے یہ ٹیم قطر، سعودی عرب، دبئی اور برطانیہ جائےبھی تو وہاں کے ریاستی قوانین ہیں، سرکاری و تصدیق شدہ دستاویزات تک رسائی کون، کیسے اور کیوں دے گا؟ بلفرض یہ سب کچھ جے آئی ٹی لے بھی آئے تو کیا سپریم کورٹ بغیر اندراج مقدمہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف فیصلہ سنا دے گی؟ عوام کی پریشانی دور کرنے کے لئے اتنی عرض ہے کہ ابھی تک حکومت کو تسلی ہے اور اپوزیشن کو بھی، ابھی روایتی اور لفظی جنگ پر مبنی سیاست کا مزا لیں اور اگلے سال ووٹ ڈالنے کی تیاری کریں جو آپ کی قومی ’’ذمہ داری‘‘ ہے، لہٰذا زیادہ سوچنا بند کریں، یہ جرمنی نہیں جہاں بطور صدر بڑے بزنس مینوں سے خفیہ ذاتی تعلقات کے افشا ہونے پر پارلیمنٹ استثنیٰ ختم کردے گی اور صدر مستعفیٰ ہو جائے گا، یہ جاپان یا چین نہیں کہ کوئی الزام لگے تو راتوں کی نیند اور دن کا چین ایسا تباہ ہوگا کہ صوبے کا وزیراعلیٰ عوام کا سامنا کرنے کی بجائے موت کو گلے لگالے گا، کس اخلاقیات کی بات کرتے ہیں کہ حلف اٹھانے کے بعد جھوٹ بولنے پر فرانسیسی ریاستی سربراہ اپنی ذات کو قربان کر دے گا، یہ کوئی سنگاپور کا منتخب وزیراعظم مسٹر لی نہیں کہ اقتدار سنبھالتے ہی احتساب اپنی ذات اور خاندان سے شروع کر کے اپنے وطن کو دنیا کا عظیم اور مضبوط ملک بنادے۔ ہمارے ہاں طاقت، پیسہ اور تعلقات ہی سب کچھ ہیں جبکہ دوسروں کومحض اخلاقیات کا درس دینا اچھا لگتا ہے۔ پاکستانی سیاست گنجلگ دھاگے کے الجھے سرے کا نام ہے جو کہاں، کس جگہ اور کہاں جا کر ملتا یا ختم ہوتا ہے کوئی نہیں جانتا؟
دلچسپ امر ہے کہ پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد اخلاقی تقاضوں اور عوامی مفاد میں طویل قانونی جنگ کے بجائے خود کو اقتدار سے الگ کرنے کا باعزت راستہ اپنایا جاسکتا تھا، لیکن یہاں تو فیصلہ بھی آچکا اور معلوم نہیں ہوپا رہا کہ یہ کس کے خلاف ہے؟، یہاں سیاست میں اخلاقیات کا سفر ابھی تو شروع نہیں ہوا تو اس راستے پر چل کر روایات تبدیل ہونے کی توقع عبث ہی ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے قوموں کی زندگیوں میں چینلجز اور مواقع ہمقدم رہتے ہیں، ہر قسم کی دشنان طرازیوں کے باوجود عدالت عظمیٰ میں ٹرائل کا ایک مثبت اور روشن پہلو بھی سامنے آیاہے، ملک میں قریباً ایک دہائی پہلے آنے والی جمہوریت کا ہی ثمر ہے کہ آج طاقت ور ترین عہدیدار وذمہ دار شخص تلاشی دینے پر مجبور ہوچکا ہے، انتخابی عمل کے ذریعے جمہوریت کا تسلسل رہا تو ملک کے دیگر اہم ستونوں کے طرح عدلیہ اس قدر مضبوط و آزاد ہوجائے گی کہ ہر’’طاقتور ور‘‘ کو اپنا حساب کتاب دینا اور عوام کے سامنے جوابدہی لازمی امر بن جائے گا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سیاسی اسٹیج سج چکا ہے ہر کھلاڑی کے لئے اپنے جوہر دکھانے اور ساکھ بچانے کا بھرپور موقع ہے، خان صاحب ایک صوبے میں حکمراں ہونے کے باوجود کچھ کرسکے یا نہیں، ان کےلئے چلینج ہےکہ وہ آئندہ انتخابات سے پہلے کچھ ایسا کر دکھائیں جو باقی صوبوں سے مختلف، بہترین اور قابل بیان و تقلید ہو، سیاسی اتحاد کا مزہ توآپ نےابھی چکوال (تلہ گنگ) میں ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی اور پرانے کھلاڑیوں سے اتحاد کر کے شکست کھانے کی صورت میں چکھ ہی لیا ہے، بہتر ہو گا کہ تنہا پرواز سے اپنی خودی ثابت کریں۔ دوسری طرف گویا مشکل وقت میں سنہری موقع وزیراعظم کو بھی مل گیا ہے، بلاشبہ انہیں کیس سے بریت نہیں ملی تو ابھی پکڑے بھی نہیں گئے، وہ آئندہ 10ماہ میں انقلابی اقدامات کرکے 2018میں عوام کی عدالت سے ضرور سرخرو ہوسکتے ہیں۔ پل اور سٹرکیں بہت بن چکے اب عوام کو اپنے مسائل کا حل چاہئے، روزگار چاہئے، اچھی صحت وتعلیم چاہئے، بجلی اور صاف پانی چاہئے، دہشت گردی وانتہا پسندی سے نجات کے فیصلہ کن اقدامات چاہئیں، چار برسوں کی کوتاہوں پر پھچتانے اور دہرانے کی بجائے اب کچھ کر گزریں، ابھی سب کچھ آپ کے ساتھ اور آپ کے ہاتھ میں ہے، یاد رکھیں شیر زخموں سے چور ضرور ہے آپ عوام کے زخموں پر مرحم رکھیں،عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنائیں وہ آپ کے زخموں کا مدوا ضرور کریں گے، قوم تو اپنی قسمت اور 70برس سے ملک اور اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سیاست دانوں اور ڈکٹیٹرز کے سلوک پر احتجاج و ردعمل کی سکت بوجوہ نہیں بھی رکھتے تو ووٹ کا اختیار و طاقت بدستور ان کی ملکیت ہے، سیاسی اداروں اور جمہوریت کی مضبوطی کا موقع غنیمت جانیں، عوامی مفاد میں فیصلوں اور خود احتسابی کے عمل کو مضبوط بنانے کا حوصلہ پیدا کریں!

.
تازہ ترین