• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کا فیصلہ اور اسلامی اتحاد فوج کی سربراہی

پاناما کیس کے فیصلہ کو واقعی تاریخی قرار دیا جا سکتا ہے اور شاید یہ بھی درست ہو کہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا، اس لئے کہ دو سینئر ججوں نے وزیراعظم کو صادق اور امین نہ ہونا قرار دے دیا جبکہ پانچوں ججوں نے اِس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم بنائی جائے جو اِس بات پر تحقیق کرے کہ یہ دولت کس طرح سے ان کے اور اُن کے بچوں کے پاس آئی، دولت کا حصول اور اس کی غیرممالک میں منتقلی کیسے عمل میں آئی، اِس تحقیقاتی ٹیم کے ممبران کی فہرست، اِس کمیشن کو منظوری کیلئے بھیجی جائے گی، اگر سپریم کورٹ کا کمیشن اسے قبول کر لے تو پھر وزیراعظم اور اُن کے بیٹوں کو اِس کمیٹی کے سامنے پیش ہونا ہوگا، اس کمیٹی میں حساس اداروں کے افسران کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اس طرح دیکھا جائے تو عدالت نے وزیراعظم کو کلین چٹ نہیں دی البتہ انہیں 60 دنوں کیلئے بیل آئوٹ ضرور کردیا ہے۔ اِس کے بعد سیاسی بیانات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ بہت عجیب و غریب ہے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو فیصلے پر ڈائریکٹ حملہ آور ہوئے کہ ملک میں شریفوں اور غریبوں کے لئے ایک الگ قوانین ہیں، آصف زرداری صاحب فرماتے ہیں اس بار پنجاب کو فتح کرنا اور شریفوں کو ہٹانا ہے، پی پی پی نے مشترکہ تفتیشی ٹیم کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ ٹیم 19 گریڈ کے افسران وزیراعظم کے خلاف کیسے تفتیش کرسکیں گے، عمران خان نے حسب روایت وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا، ورنہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ وہ پہلے بھی نکلے تھے مگر نواز شریف کافی مقبول تھے، وہ انہیں ہلا نہیں سکے، اسمبلی میں بھی اپوزیشن نے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ سندھ اسمبلی میں وزیراعظم کے استعفے کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ جواباً مسلم لیگ (ن) کے سب سے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کسی کو منتخب عہدے سے ہٹانے کا اختیار نہیں۔ آصف علی زرداری کی اپنی ایمانداری کے دعویٰ پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے خوب جواب دیا کہ زرداری کا ایمانداری پر لیکچر قیامت کی نشانی ہے، وزیر مملکت برائے اطلاعات نے ایک سیدھا سادہ سا جواب دیا کہ وزیراعظم پر الزام لگانے والوں کو سپریم کورٹ سے جواب مل گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا فرمانا تھا کہ وزیراعظم کو کلین چٹ نہیں ملی، انہیں اخلاقاً مستعفی ہوجانا چاہئے۔ یہ سارے بیانات اپنی جگہ مگر امر واقعہ یہ ہے کہ معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے اپنی دولت باہر ہی رکھنا کیوں ضروری سمجھا ہوگا۔ اس میں سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اگر آپ ایک ملک کے وزیراعظم بن گئے تو آپ اپنے پیسے کیسے باہر رکھ سکتے ہیں مگر یہ طریقہ پھر آصف علی زرداری نے بھی اپنایا ہوا ہے۔ شنید ہے کہ اربوں روپے باہر بھیجے گئے اور خود کو امیر و کبیر بنا لیا۔ اسی طرح ایک سابق چیف جسٹس کا فرمانا ہے کہ اگر پنڈورا بکس کھل گیا تو عمران خان بھی اُس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تھا کہ آصف یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں حکمرانی کرنا مشکل ہے، بہتر ہے کہ مال کمائیں اور باہر جا کر امیروں کی طرح رہیں۔ یعنی وزیراعظم اپنے ملک کے مفاد کیلئے اپنے مفاد میں حکمرانی کرنے کیلئے آتے ہیں، یہ حالات کا جبر ہے یا صورتحال کی عکاسی، بہرحال جو کچھ بھی ہو معاملہ اسی طرح کا ہے۔
ایک زمانے سے سیاستدان ملک سے لاتعلق ہوگئے تھے، اب انہوں نے اپنے آپ کو محفوظ بنا کر ملک کیلئے کام کرنا شروع کیا، مگر یہ بات آصف علی زرداری پر لاگو نہیں ہوتی، اگر صورتحال کا مزید گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قومی اور بین الاقوامی تناظر پاکستان کا اِس وقت عدم استحکام کا شکار ہونا درست نہیں ہوگا، پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مگر حالات کی ستم طریفی یہ ہے کہ پاکستان خطرات سے دوچار ہے، اس وقت پاکستان کو انتہائی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا، پاکستان کا کردار عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے، ایک چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے جس پر کسی حملے کو روکنے کی تیاری مکمل ہے، ایسی صورت میں اگر اندرونی طور پر خلفشار ہوجائے تو درست نہیں ہوگا، ہماری فوجی صلاحیت اِس حد تک بہتر سمت میں ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف کو اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بنا لیا گیا۔ یوں پاکستان اپنے برادر ممالک کے لئے دہشت گردی کی جو آگ مغرب نے لگائی ہے کچھ کرسکتا ہے، اِس اتحاد پر ایران کو قدرے اعتراض ہے تاہم جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو جنگی حکمت عملی وضع کی وہ بذات خود اِس بات کی شہادت دیتی ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک پروفیشنل جنرل ہیں، انہوں نے کمال خوبی سے بغیر کسی امتیاز کے دہشت گردوں کی کمر توڑ ڈالی۔ اسی طرح اِس بات کی توقع ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک باوقار جنرل کے طور پر اپنے آپ کو سامنے لائیں گے، پھر یہ ہمارے دوست ملک کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارے 15 لاکھ سے زائد ورکرز عرب ممالک میں کام کررہے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں جو زرمبادلہ ملتا ہے اس سے ہمارے ملک کا بجٹ بنتا ہے، تاہم اِس سے صرفِ نظر پاکستان فوج کسی صورت کسی محاذ آرائی میں شامل نہیں ہوگی بلکہ اس کے ذریعے امریکہ کا وہ منصوبہ بھی ناکام ہوگا جو مسلمان ممالک کو باہم لڑانے کا ہے، یہ اتحاد ایسی کسی جنگ کی راہ میں رکاوٹ بنے گا اور یہ کوشش کرے گا کہ دونوں ممالک میں ملاپ کی کوئی راہ ضرور نکالی جائے۔ کئی مرتبہ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنائو کم کرایا ہے اور اب بھی کرانے کی کوشش جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اِس سلسلے میں اچھی خاصی پیش رفت کی جانے کی اُمید ہے۔ یہ کوشش ضرورجاری رکھنی چاہئے کہ اِن ممالک میں کوئی تصادم کی صورتحال نہ پیدا ہو، اگر ایران اس اتحاد میں شامل ہوجائے تو کافی بہتر پوزیشن میں آجائے گا اور یہ خطہ امن کا گہوارا بن جائے گا۔

.
تازہ ترین