• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد اس اہم ترین ایشو پر ملک میں بے یقینی کی فضا ختم ہو جانی چاہئے تھی اور لوگوں کو عدالت کے تعین کردہ 13 سوالات کی تحقیقات کے لئے قائم ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ اور اس کے عدالتی جائزے کی روشنی میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے تھا مگر اس کی بجائے بنچ کے اختلافی فیصلے اور جے آئی ٹی کی تشکیل کو بنیاد بنا کر ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا ہے جس نے سیاسی محاذ آرائی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جے آئی ٹی میں ایف آئی اے، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان،ا سٹیٹ بینک، ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل کئے جائیں گے۔ بعض سیاسی لیڈروں کو اعتراض ہے کہ یہ ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں اس لئے ان کی تحقیقات آزادانہ اور غیرجانبدارانہ نہیں ہو گی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس بحث کے دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور فوج کو بھی کچھ کھلے اور کچھ ڈھکے چھپے لفظوں میں ہدف تنقید بنایا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پیر کو بنی گالہ میں غیرقانونی تعمیرات اور درختوں کی کٹائی کے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالتوں کے اختلافی فیصلے دنیا بھر میں ہوتے ہیں مگران پر ایسا شور کہیں نہیں مچتا جیسا پاکستان میں ہو رہا ہے، انہوں نے عدالت میں موجود تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتی ہیں آپ سمیت تمام سیاستدانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عدالت کا احترام یقینی بنایا جائے، اس کے وقار پرحرف نہیں آنا چاہئے آپ لیڈر ہیں، آپ کی آواز سے بہتری بھی آسکتی ہے اور خرابی بھی۔ قوم کو بداعتمادی کی فضا سے نکالنے میں مدد کریں، چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ تمام فیصلے قانون اور آئین کو سامنے رکھتے ہوئے کرتی ہے۔ اس پر بد اعتمادی ختم کرنا ہو گی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی اس معاملے پر بات چیت کی گئی، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ پیغام کے مطابق کور کمانڈرز اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پانامہ لیکس کے فیصلے کی روشنی میں فوج مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں شامل اپنے نمائندوں کے ذریعے قانونی اور شفاف انداز میں اپنا کردار ادا کرے گی اور سپریم کورٹ نے جس اعتماد کا اظہارکیا ہے اس پر پورا اترے گی۔ ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے ایمانداری سے تحقیقات کریں گے اورسپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ذمہ داری پرمن و عن عملدرآمد کیا جائے گا۔ جہاں تک جے آئی ٹی کی تحقیقات پر وزیراعظم آفس کے اثر اندازہونے کے اعتراض کا تعلق ہے تو چوٹی کے قانونی ماہرین وجیہہ الدین احمد، ایس ایم ظفر اور بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ سپریم کورٹ کا آزاد اور طاقتور بنچ تحقیقات کے پورے عمل کی نگرانی کر رہا ہو گا۔ جے آئی ٹی ہر پندرہ روز بعد اپنی رپورٹ بنچ کوپیش کرے گی اور تحقیقات 60روز میں مکمل ہوجائیں گی۔ عدالت عظمیٰ ہر قیمت پر اس امر کو یقینی بنائے گی کہ جے آئی ٹی وزیراعظم آفس سمیت کسی کے بھی دبائو میں آئے بغیر کام کرے۔ پھر جے آئی ٹی فیصلہ نہیں سنائے گی ججوں کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی جو اس کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اپنی رائے قائم کریں گے۔ پانامہ لیکس ایک پیچیدہ کیس ہے، اس میں لگائے گئے الزامات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کی جامع تحقیقات ضروری ہے۔ مکمل حقائق اس کے بعد ہی سامنے آئیں گے، تحقیقات کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے اس لئے سیاسی پارٹیوں کو جو آئندہ انتخابات پر نظریں جمائے وقت سے پہلے ہنگامہ خیز انتخابی مہم شروع کئے ہوئے ہیں، اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہئے اور ایسے شکوک و شبہات اور ابہامات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے جس سے معاشرے میں تقسیم اور انتشار کی فضا پیدا ہو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے پانامہ کیس میں ہونے والی سنجیدہ پیش رفت متاثر ہو۔

.
تازہ ترین