• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
استنبول فتح ہونے کی 564ویں سالگرہ پر ترک کاریگروں نےایک ا یسا قالین تیار کیا ہے جس پر5لاکھ 64ہزار گل لالہ اپنی بہار دکھارہے ہیں۔ یہ قالین 1453 سکوئر میٹر پر محیط ہے لیکن نہیں…یہ قالین صدیوں پر محیط ہے اور اس کے ہر پھول کی ہررگ میں دلیر سر فروش ترکوں کا لہو موجزن ہے جنہوں نے تین براعظموں پر صدیوں حکومت کی اور سبھی ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا۔ خانہ بدوش ارطغرل اور غازی عثمان کی اولاد بھی عجیب تھی کہ ان جیسے عالیشان اور متضاد حکمران بنی نوع انسان کی تاریخ میں موجود نہیں۔ حرم سرائوں میں ہاروں اور میدان جنگ میں تلواروں جیسے ان سلاطین میں یوں تو فاتحین گنے نہیں جاتے لیکن محمد فاتح کی شان ہی اور ہے۔امیر تیمور سے بایزید یلدرم کی غیر متوقع شکست کے بعد اس کے پوتے سلطان مراد تک عثمانی ٹھٹھرگئے تھے کہ 1421میں سلطان مراد دوم تخت نشین ہوا تو بخت جاگ گئے کہ مستقبل کا سلطان محمد فاتح اسی کے گھر ہما خاتون نامی کنیز کےبطن سے پیدا ہوا۔ سلطان مراد اپنے اس فرزند کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن چہیتا شہزادہ مرگیا تو شہزادہ محمد منظر پر ابھرا۔ یہ ایک سرکش، ضدی، تندخو، گرم مزاج اور انتہائی جارحانہ طبیعت کا مالک تھا جو کسی کو خاطر میں نہ لاتا۔ سلطان مراد نے اپنے جانشین کے لئے کئی اتالیق آزمائے لیکن اس نے کسی کو پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیا۔ تب سلطان نے ایک کرد مذہبی پیشوا ملا احمد گیورانی کو شہزادہ محمد کا اتالیق مقر رکرتے ہوئے شہزادے کو راہ راست پر لانے کا گر بتایا۔ حسب معمول کم سن شہزادے نے اس کا بھی تمسخر اڑایا تو ملا گیورانی نے ایسی ٹھکائی کی کہ سرکشی سرنگوں ہوگئی۔ وہ مثالی طالبعلم بن گیا۔ اسلامی، یونانی اور لاطینی تاریخ و ادب کے علاوہ فلسفہ اور سائنس کے علوم حاصل کئے کہ اب اساتذہ میں یورپی اور ایشیائی بھی شامل تھے۔سلطان مراد نے پہلی بار اپنی زندگی میں تجرباتی طور پر نوخیز محمد کو سلطان بنایا لیکن جلد ہی فیصلہ واپس لے لیا۔ دوسری بار باپ کی موت کے بعد سلطان بنا تو یہ اس کی19ویں سالگرہ سے ایک ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔نوجوان سلطان محمد کی نظر قسطنطنیہ پر تھی جسے دنیا ناقابل تسخیر سمجھتی تھی اور دو حملے پہلے بھی ناکام ہوچکے تھے۔ قسطنطنیہ تک رسائی صرف سمندری رستے سے ممکن تھی۔ 1452کے موسم گرما میں سلطان محمد نے بحیرہ باسفورس کے یورپی ساحل پر رومیلی حصار نامی قلعہ تعمیر کروایا۔ یہ قلعہ انادولو حصار نامی قلعہ کے بالمقابل تھا جسے بایزید اول نے1397 میں بنوایا تھا۔ محاصرہ کی تیاری کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ بحیرہ اسود سے قسطنطنیہ تک ہر قسم کی رسد بن کی جاسکتی تھی۔محاصرہ 6اپریل 1453کو شروع ہوا جب نوجوان سلطان نے اپنا خیمہ سینٹ رومانس کے گیٹ کے سامنے نصب کرایا اور توپ خانہ کو بم برسانے کا حکم دیا۔ بمباری سات ہفتوں تک جاری رہی۔ اس دوران سلطان کے ینی چری اور اناطولی پیادہ دستے سر دھڑ کی بازیاں لگاتے رہے، پھر عسکری تاریخ کامعجزہ ہوا۔ ترک 29مئی 1453کی صبح شہر میں داخل ہوگئے۔ بازنسطینی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا اور ایک ا یسی سلطنت ڈھیر ہوگئی جس کی حکومت ہزار سال پر محیط تھی۔سلطان محمد اسی مئی کی ایک سہ پہر شہر میں داخل ہوا۔ جب وہ ایڈریانو پل سے گزرا تو اس کے جان نثار فوجیوں نے بے اختیار ہو کر پکار کی......فاتح، فاتح، فاتح اور پھر وہ اسی لقب سے مشہور اور تاریخ میں محفوظ ہوگیا اور میں آج 564سال بعد بھی اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سن رہا ہوں جو عالم اسلام کو سنائی نہیں دے رہی کیونکہ وہ ’’پانامائوں‘‘ میں غرق ہے۔فتح کے بعد قسطنطنیہ کو ترکی میں استنبول کہا جانے لگا جو یونانی زبان کے لفظ"Stin poli"کی بدلی ہوئی صورت ہے۔یونانی مورخ کرتیوولوس سلطان محمد فاتح کی شہر میں آمد کا آنکھوں دیکھا حال لکھتا ہے۔’’سلطان شہر میں داخل ہوا اور اس نے شہر کی وسعت، محل وقوع، خوبصورتی، شان و شوکت، آبادی، دلکشی، گراں قدر گرجا گھروں اور سرکاری عمارتوں کو دیکھا تو اس کا دل رحم سے لبریز ہوگیا۔ آنسو بہنے لگے اور وہ بولا ’’کیسا شہر تھا جسے ہم نے برباد کرڈالا‘‘۔ عظیم فاتح شہر کی سب سے بڑی سڑک پر گھوڑا دوڑاتا ہوا چھٹی پہاڑی سے پہلی پہاڑی تک گیا۔ یہاں وہ ایا صوفیا پہنچا جس عظیم چرچ کو شہنشاہ جسٹینین نے532یسوی میں تعمیر کرایا تھا۔ سلطان محمد فاتح گھوڑے سے اترا اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے زمین سے مٹی اٹھائی اور اپنی پگڑی پر ڈال دی جو ایک طرف علامت تھی عاجزی کی تو دوسری طرف افسوس کی کہ چرچ اسلام میں بھی اتنا ہی محترم جتنا عیسائیت میں۔ عمارت کا جائزہ لینے کے بعد اس نے چرچ کے ساتھ مسجد تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا جس کی تکمیل پر سلطان نے یکم جون1453 کو وہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔استنبول کی فتح کی 564ویں سالگرہ کی ادھوری کہانی ختم ہوتی ہے، اس دکھ کے ساتھ کہ آج ہمارے پھٹے ہوئے بدبودار دامن میں سوائے سرے محل اور پاناما کے کوئی کہانی نہیں۔



.
تازہ ترین