• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
سی پیک پر منعقدہ سیمینار میں شرکت کیلئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال خصوصی طور پر اسلام آباد سے گوادر تشریف لائے جبکہ وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو کراچی سے گوادر پہنچے۔ فائیو اسٹار ہوٹل کا ہال پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریب کے میزبان گوادر چیمبر کے صدر فیصل جمال دشتی، نائب صدر میر امداد رند اور اُن کی ٹیم کے ارکان مہمانوں کا فرداً فردا استقبال کررہے تھے جن میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر سجاد بلند، گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ اتھارٹی کے محمد وقاص اور ڈسٹرکٹ کونسل گوادر کے چیئرمین بابو گلاب بھی شامل تھے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ 50ارب ڈالر کا سی پیک منصوبہ تیزی سے حقیقت میں ڈھل رہا ہے جو نہ صرف دنیا میں علاقائی تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ بن کر ابھرے گا بلکہ خطے میں امن، خوشحالی اور ترقی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوگا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ توانائی، انفراسٹرکچر اور بندرگاہ کے منصوبے پاکستان میں صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھیں گے، چین سے 85 ملین روزگار کم پیداواری لاگت کے ممالک کو منتقل ہوگا اور پاکستان سی پیک کے ذریعے اس کا خطیر حصہ حاصل کریگا۔ گوادر کو جدید ترین پورٹ سٹی بنانے کیلئے ماسٹر پلان پر کام شروع ہوچکا ہے جبکہ گوادر میں نئے ایئرپورٹ کی تعمیر رواں سال شروع ہوجائے گی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستانی بزنس کیلئے تاریخی موقع لے کر آیا ہے، نجی شعبے کا فرض ہے کہ سی پیک سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھرپور تیاری کرے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے سربراہ ژینگ بائوزنگ جو شلوار قمیض میں ملبوس تھے، نے واضح کیا کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ چینی ورکرز، پاکستانی ورکرز کا روزگار چھینیں گے، سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد صنعتی زونز میں پاکستانی ورکرز کو روزگار ملے گا جبکہ منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئرز اور ورکرز کام مکمل کرکے اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے صدر زبیر طفیل نے اپنی تقریر میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے درخواست کی کہ گوادر کو فری زون قرار دیا جائے جس سے گوادر میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس موقع پر میرے بھائی اختیار بیگ نے اپنی تقریر میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ گوادر انڈسٹریل زونز میں پاکستانی کمپنیوں کو بھی وہی مراعات اور سہولتیں دی جائیں جو چینی کمپنیوں کی دی گئی ہیں۔ تقریب کے اختتام پر گوادر چیمبرز آف کامرس کے صدر فیصل جمال دشتی جن کے سر سیمینار کی کامیابی کا سہرا جاتا ہے، نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرکے سیمینار کو کامیاب بنایا۔ انہوں نے وفاقی وزیر احسن اقبال سے درخواست کی کہ حکومت گوادر میں پانی کی فراہمی اور سیوریج کے نظام پر توجہ دے۔
گوادر نے اپنی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرلی مگر ایسے میں فراڈیئے اور دھوکے بازوں نے بھی جعلی اور دو نمبر رہائشی اسکیموں و دیگر کالونیوں کی آڑ میں لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے جبکہ پلاٹوں کی لین دین پر سٹے بازی زوروں پر ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر کی اصل صورتحال سے لاعلم ہونے کی وجہ سے ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب اشتہارات کی وجہ سے اُن کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجی سے محروم ہورہے ہیں جبکہ یہاں ایسی اسکیمیں بھی ہیں جنہیں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے این او سی جاری کر رکھی ہے مگر ان کی ابتدا ابھی تک نہیں ہوسکی اور وہ اپنے پوسٹرز، پمفلٹ پر دبئی اور ہانگ کانگ کے مناظر اور عمارتیں دکھاکر لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں جبکہ سندر اور دیگر رہائشی اسکیموں پر ابھی تک کوئی مکان تعمیر نہیں ہوا ہے۔ لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ زمینوں کی خرید و فروخت میں احتیاط سے کام لیں جبکہ حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ پلاٹوں کی خرید و فروخت میں شفافیت کو یقینی بنائے اور رہائشی اسکیموں میں تعمیراتی کاموں کی جلد از جلد اجازت دی جائے۔
سیمینار کے بعد کراچی واپسی پر طیارے کی کھڑکی سے گوادر کا نظارہ کرکے یہ سوچ رہا تھا کہ جب 60 سال قبل اُس وقت کی حکومت نے گوادر کو 10 ملین ڈالرز کی قلیل رقم سے خریدنے کا فیصلہ کیا تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب گوادر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کرجائے گا اور یہ علاقہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی معیشت کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا جبکہ سی پیک راہداری کی بدولت چین کو بحرہند تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور راہداری سے چین کادنیا سے فاصلہ کئی ہزار کلومیٹر کم ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ چین کیلئے خلیج فارس کا تیل 16 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے تقریباً 3 ماہ میں شنگھائی پورٹ پہنچتا ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر سے یہ فاصلہ کم ہوکر دو ہفتوں کا رہ جائے گا اور محصولات کی صورت میں پاکستان کو اربوں ڈالر ملیں گے جبکہ گوادر بندرگاہ سے تقریباً 20 لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔
گوادر چیمبر کے صدر فیصل جمال دشتی، نائب صدر میر امداد رند اور اُن کی ٹیم کے دیگر ممبران مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے سی پیک پر کامیاب سیمینار کا انعقاد کرکے نہ صرف بڑی تعداد میں بزنس مینوں کی شرکت کو یقینی بنایا بلکہ گوادر پورٹ کی اہمیت و افادیت سے لوگوں میں آگاہی ہوئی۔ کئی دہائی گزرنے کے بعد آج گوادر بندرگاہ سی پیک منصوبے کے باعث دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور مستقبل میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کی بحری تجارت کا دارومدار اسی بندرگاہ پر ہوگا۔ گوادر بندرگاہ اپنی تکمیل کے بعد بین الاقوامی صنعتی و تجارتی مرکز بن کر ابھرے گی جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ آج ہر سیاسی جماعت گوادر اور سی پیک منصوبے کا سہرا اپنے سر لینا چاہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا تمام تر سہرا اُس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان کی حکومت کو جاتا ہے جنہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوادر جیسے انمول ہیرے کو کوڑیوں کے مول خریدا۔



.
تازہ ترین