• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہاں سائنس دان اور کہاں سیاسی مظاہرے؟ سائنس دانوں کا عمومی تصور یہ ہے کہ وہ موٹے موٹے شیشوں والی عینکیں پہنے کتابوں کے کیڑے ہوتے ہیں یا اپنی لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں میں گم ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ وہ جب نئی ایجادات کرتے ہیں تو اس کے سماجی پہلوئوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مثلاً ایٹم بم کی ایجاد کرنے والے سائنس دانوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کی ایجاد کتنی تباہ کن ہو سکتی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو پچھلے ہفتہ دنیا بھر میں ہونے والے سائنس دانوں کے مظاہروں کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اور بالخصوص امریکی سائنس دانوں نے سیاسی مظاہرے کرکے یہ عندیہ دیا ہے کہ اب سائنس دان سماجی ایجنڈے کے بارے میں گہری تشویش رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں سارے دن کی موسلا دھار بارش کے باوجود سائنس دانوں نے بھرپور مظاہرہ کیا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سائنس مخالف پالیسیوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
دنیا بھر کے سائنس دانوں کو تشویش ہے کہ سائنس اور سائنسی طریق کار زیر عتاب ہیں۔ عالمی سطح پر قدامت پسند قوم پرست سیاسی تحریکوں نے سائنسی فکر کو بہت زیادہ مجروح کیا ہے۔ مذہبی جنونیت اور قوم پرستی کے ابھار کی وجہ سے سائنسی طرز فکر پس منظر میں غائب ہوتی جا رہی ہے اور اس کی بجائے متعصب عقیدے تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ ماحولیات کی بگڑتی ہوئی عالمی صورت حال کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس نے اپنے دفاعی بجٹ میں 54 بلین ڈالر کا اضافہ کرنے کے لئے سائنس سے متعلقہ شعبوں کا بجٹ بہت کم کردیا ہے۔ اس کٹوتی کی زد میں کینسر ریسرچ سے لیکر بہتر ماحولیات کے لئے ہونے والی تحقیق بھی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ انسانی زندگی کو بہتر بنانے والی سائنسی ریسرچ کی بجائے جنگ جوئی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اس طرح کی پالیسی سے ٹینکوں اور توپوں میں اضافہ ہو گا اور انسانی بھلائی کے لئے کام کرنے والے بہت سے سائنس دان بیروزگار ہو جائیں گے۔
آج تک کی انسانی ترقی کی بنیاد سائنس ہے سائنسی ایجادات کے نتیجے میں انسان اپنے موجودہ مقام تک پہنچا ہے۔ لہٰذا سائنس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑا کرنے کا مطلب ہے انسانی نشو نما اور ارتقا کو مسخ کرنا۔ اسی حکومتی طرز عمل کے خلاف سائنس دان پہلی مرتبہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سائنس دانوں کو شعور ہے کہ سیاسی پیش قدمی سے ہی معاشرے کی ترجیحات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کے محدود وسائل کی تقسیم سیاسی نظریات کے تابع ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر سائنس دان چاہتے ہیں کہ وہ انسانی بھلائی کے لئے کام کریں تو انہیں سیاسی حاکموں کی ترجیحات کو تبدیل کرنا پڑے گا۔
سائنسی تحقیقی منصوبے بہت لمبے عرصے پر محیط ہوتے ہیں۔ مثلا بعض بیماریوں کے علاج کے لئے ایک دوا کئی دہائیوں میں تیار ہوتی ہے۔ اس عمل کو جاری رکھنے کے لئے معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سائنس دانوں کو وسائل فراہم کرے۔ سائنسی تحقیق طویل المیعاد ہوتی ہے جس کے لئے ریاست کی معاشی پشت پناہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کینسر جیسے موذی مرض کے بارے میں ابھی تک کی تحقیق نا تمام ہے اور ابھی تک اس کا حتمی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا۔ ہو سکتا ہے کہ کینسر پر کئی دہائیوں کی مزید تحقیق کی ضرورت ہو۔ اس طرح کی تحقیق کے لئے ریاست کی مدد کی ضرورت ہے۔ اب جب ٹرمپ انتظامیہ نے صحت کے بڑے اداروں کے بجٹ پر تلوار چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ ظاہر ہے کہ کینسر پر ہونے والی سائنسی تحقیق رک جائے گی جو کہ انسانیت کے لئے بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔ سائنس دان ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے عالمی حکمرانوں کی ترجیحات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ہزاروں سال کی انسانی تاریخ سے یہی اخذکیا جا سکتا ہے کہ سائنسی طرز فکر اپناتے ہوئے ترقی کی جا سکتی ہے۔ سائنسی طرز فکر ٹھوس مادی عوامل پر مبنی ہوتی ہے۔ سائنسی طرز فکر کے تحت معروضی حالات کا جائزہ لے کر نتائج اخذ کئے جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں معتقدات پر مبنی سوچ موضوعی ہوتی ہے اور اس سے کسی نہ کسی طرح کا تعصب پھیلتا ہے۔ یہ تعصب مذہبی اور قوم پرستانہ جنگوں کی بنیاد بنتا رہا ہے۔ سائنسی طریق کار کا اطلاق معاشی علوم پر بھی ہوتا ہے۔اسی طریق کار سے عالمی سطح پر انسانوں کے مادی اور سماجی حالات کے بارے میں جانکاری ہوتی ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بہت سے مفکر پیدا ہوئے جنہوں نے سائنسی بنیادوں پر انسان کے ارتقاکی گتھی سلجھانے کی کوشش کی۔ بیسویں صدی میں عظیم سائنسی ایجادات سے انسان کی حالت مکمل بدل چکی ہے۔ صرف 80کی دہائی سے لے کر اب تک انٹرنیٹ اور کمیونیکشن کے میدانوں میں جو ترقی ہوئی ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن 80کی دہائی سے ہی قدامت پرست نظریات نے دنیا کو اپنے شکنجے میں لینا شروع کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اس قدامت پرستانہ نظریے کا عروج ہے جس کے خلاف سائنس دان سڑکوں پر دکھائی دے رہے ہیں۔
برصغیر میں بھی اسی کی دہائی سے لے کر اب تک غیر معمولی معاشی ترقی ہوئی ہے لیکن اسی عرصے میں مذہبی اور تنگ نظر قوم پرستی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر معروضی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو اس ترقی اور قدامت پرستی کے درمیان کوئی تعلق ہے جسے سمجھنے کی شدید ضرورت ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں انتہا پسند نظریات میں بہت اضافہ ہوا ہے جس سے تشویشناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ان ممالک میں بھی سائنس دانوں کا فرض ہے کہ وہ سائنسی طرز فکر کی ترویج کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔



.
تازہ ترین