• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’آئین نو‘‘ کے قارئین کرام! آپ بخوبی واقف ہیں اور مندرجات پر مبنی ریکارڈ شاہد ہے کہ ان سطور میں ’’جاری اسٹیٹس کو‘‘ کو نظام بد قرار دیتے ہوئے، اس کی عوام دشمنی، مکاری کے ہر ہر پہلو کی نشاندہی تسلسل کے ساتھ کرتےہوئے، ملک و قوم کی نجات کے لئے بالآخر رائے عامہ کے لئے جو بیانیہ تشکیل دیا گیا، وہ ہے ’’آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ‘‘..... ملک میں ہر طرف اور ہر طرح کے ذریعے سیاسی ابلاغ سے یہ ثابت کرنا آسان تر ہے کہ ’’آئین نو‘‘ میں برسوں کی دماغی کاوش اور کتنے ہی قابل قدر رائے سازوں کی آرا پر سنجیدہ غور و خوض کے بعد ناچیز کے تیار کئے گئے اس بیانئے سے کوئی بھی سیاسی جماعت اختلاف کر ہی نہیں سکتی۔ قطع نظر اس کے کہ وہ عملاً اسے مکمل اختیار کرنے کی نیت اور صلاحیت کی حامل ہے یا نہیں، اسے ملک و قوم سے اپنی وفا ثابت کرنے کے لئے، اس بیانئے سے اتفاق کرنا ہی پڑتاہے۔ پھر اس کی اپنی تاریخی حقیقت ہے کہ آئین پاکستان 1973ملک کی آج بھی منظر پر موجود سیاسی جماعتوں کے سیاسی قائدین و زعما کے اتفاق اور مشترکہ کوششوں سے متفقہ دستور بنا۔ جو پارٹیاں بعدمیںقائم ہوئیں انہوں نے بھی اس سے کبھی اختلاف نہیں کیاگویا یہ ہی پاکستان کے اتحاد و استحکام کی ضمانت ہے جبکہ ’’قانون کےیکساں نفاذ‘‘سے کون اختلاف کرسکتا ہے۔ بلکہ اس کے نفا ذ کا دوہرا معیار تو ثابت شدہ حد تک تباہ کن ہے، ملک میں گورننس اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کی تباہی کی بڑی وجہ ہی عملاً نفاذ ِ قانون کا دوہرا معیار ہے۔
جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بننے کے تمام تر موجود پوٹینشل کے باوجود پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی ہی یہ ہے کہ آئین پاکستان جتنا متفقہ اور اپنے مندرجات کے اعتبار سے عوام دوست ہے، حکمرانوں کی جانب سے اسے مکمل اوراس کی روح کے مطابق اختیار کرنے سےگریز بھی مکمل ثابت شدہ کیس ہے جبکہ آئین کو مکمل اوربمطابق روح نافذ کرنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ عائد ہی حکمرانوں پر ہوتی ہے جو ہماری کوئی بھی سول حکومت نہیں نبھاتی بلکہ یہ اس کے الٹ عوام دشمن بیڈگورننس میں تادم مبتلا ہوتی رہیں، جس سے قانون کے من مانے نفاذ کی تشویشناک صورت نکلی جو عوام دشمن اور حکمران دوست تھانے کچہری کلچر میں ڈھل کر اسٹیٹس کو (نظام بد) کی طاقت اور ڈھال بنی۔
الیکشن 2013کے متنازع اورمشکوک بن جانے والے نتائج کے ’’آئین نو‘‘ میں تجزیوں کا لب لباب یہ رہا تھا کہ ادھورے آئین کے من مانے نفاذ، قانون اور تیسری باری کے ابتدا میں ہی اختیار کی گئی بدستور جاری حکمران اپروچ اور قومی سیاست میں تبدیلی کی نئی سیاسی قوت کی تبدیلی کے نعروں کے ساتھ جارحانہ آمد اور جزوی کامیابی سے نظام بد (اسٹیٹس کو) چٹخا توضرور ہے، لیکن اس کی شکست و ریخت کوئی آسان نہیں جبکہ حکومت و اپوزیشن دونوں ہی باہمی مفاہمت کی شکر سے منہ میٹھا رکھنے پر آمادہ ہوگئی ہوں۔یہ بھی واضح کیاگیا تھا اسٹیٹس کو کی چٹخی ہوئی چٹان کی دراڑوں پر تبدیلی کے نحیف قطرے مسلسل ٹپکتے رہے اور تبدیلی کامینہ برستا رہا تو نظام بد کی ریخت کا عمل شروع ہو جائے گا۔ بالآخر یہی ہوا۔ خان، قادری کی غیرمتوقع ہمنوائی نے یہ ہی کام دکھانا شروع کیا۔ خان اعظم کا چار حلقو ں میں ووٹ کاسٹنگ کے سارے عمل کی بااعتبار تحقیق کا زوردار مطالبہ، اوپر سے سانحہ ماڈل ٹائون جیسا ڈیزاسٹر اور انتخابی دھاندلیوں پر قائم کئے گئے جوڈیشل کمیشن کی یہ حتمی فائنڈنگ کہ الیکشن میں خلاف ِ قانون و ضابطہ بہت کچھ ہوا، متنازع حلقوں میںہزار ہا ووٹ کے پہچانے نہ جانے (کہ یہ کس کے ہیں) تک کی تصدیق ہوئی، لیکن یہ ثابت نہ ہوا کہ موجودہ حکومت اس دھندے میں شامل تھی، سو اس کو سزا دینا نہ بنا۔ عدالتی احکامات سے ہی بلدیاتی اداروں کے انتخابات اور مردم شماری کی آئینی ضرورت پوری ہوسکی جبکہ ہر دو خصوصاً بلدیاتی انتخابات کے خلاف دو روایتی حکمران جماعتوں نےممکنہ حد تک عدالتی احکام کو ماننے میں مزاحمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ کتنی آئین کے مکمل نفاذ پر حقیقتاً یقین رکھتی ہیں؟ باقی قانون کا معاشرے کے تمام طبقات پر یکساں نفاذ کی خلاف ورزیوں کے تو ان کی جانب سے پہاڑ لگے ہوئے ہیں حتیٰ کہ امن عامہ میں پولیس کو مفلوج کردینے کےبعد جب رینجرز آئینی گنجائش کے ساتھ میدان میں اتری تو بھی اس کے مجوزہ اقدامات کے خلاف سندھ میں شدت سے اور پنجاب میں بھی مداخلت ہوئی۔ ان حالات میں،عوام بے بس، پارلیمانی فورس کبھی مصالحت اور کبھی مفاہمت میں جکڑی حقیقی اپوزیشن لوکیپسٹی کی حامل۔ لیکن حکمرانوں کے آئین سے گریز، قانون کے کھلم کھلا اوربے پناہ دوہرے نفاذاور عوام کی بے بسی و بے کسی پر مملکت ِ خداداد اللہ تعالیٰ کے رحم میں آگئی۔ شکر الحمد للہ۔
پاناما کی حقیقت ہرگز یہ نہیں کہ اس کے ذریعے ایک جماعت کی حکومت جاسکتی یا ایک حکمران خاندان کا اپنےکئے کے قانوناً انجام کو پہنچنا ممکن ہوگا۔ یہ محدود ہدف ہے تو فقط سیاسی جماعتوں کاہے، حقیقت میں تو یہ پاکستان سنبھالنے کے لئے مدد ِ خدا ہے۔ پاکستان آئینی و قانونی راہ پر چڑھتا اور اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے کی
صراط ِمستقیم اختیار کرتامعلوم دے رہاہے۔ اگرچہ پاناما فیصلے پرہیجان خیز اور اپنے اپنے مطلب نکالنےوالا ردعمل بدستور جاری ہے لیکن عدلیہ نے بھی اپنے آپ کو کڑی آزمائش میں خود ڈال لیا ہے۔ اب پورا بھی اترنا ہے۔ انتہائی متعلق سوال یہ بنتے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ د وران تفتیش، متعلقہ تفتیشی اداروں کو مطلوب حد تک اسٹریم لائن رکھنے میں کامیاب رہے گی؟
جارحانہ سیاسی ابلاغ کا دبائو کس حد تک سپریم کورٹ کو قانون کی ر اہ سے اِدھر اُدھر ہونے میں ڈسٹرب کرسکتاہے؟ خود ملزم حکمران خاندان اپنی انتظامی و سیاسی ا ور دولت کی طاقت سے راہ ِ انصاف میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے؟ اپوزیشن اگر متحد ہو کر یا اپنی اپنی پوزیشن میں سب کچھ سیاسی دبائو سے ہی کرانا چاہتی ہے تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو قوم وملک کی ضرورت ہے یعنی آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ؟ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سنبھالنے، آئین و قانون کی راہ پر چلانے، بحران در بحران سے نکالنے، دنیامیں اسے جمہوری اور مہذب ملک کےطور پر منوانے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ ایسے میں آئین و قانون کی فہم رکھنے والے اس کو مکمل اختیارکرنے کے نتائج سے آشنا ماہرین آئین و قانون نکلیں اور سیاسی دبائو یارنگ سے مملکت کو گرداب سے نکالنے کے بجائے نتیجہ خیز آئینی و قانونی جدوجہد کا آغاز کریں۔ آئیں، میدان عمل میں نکلیں۔ یادرہے پاکستان طویل آئینی و قانونی، پھر عوامی جدوجہد سے وجود میں آیا تھا اور یہ ملک ایک باضمیر اور کامیاب وکیل نے بنایا تھا۔ وما علیناالاالبلاغ



.
تازہ ترین