• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی خراب نہیں ہونےدیگی،احسن اقبال

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ’گو نواز گو‘ مقبول نعرہ بن گیا ہے، کچھ سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے کیلئے عدلیہ اور افواج جیسے اداروں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہی ہیں،آصف زرداری کے تند و تیز بیانات کی وجہ الیکشن قریب آنا ہے، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں ن لیگ مخالف ووٹ حاصل کرنے کیلئے مقابلہ ہے، نیوز لیکس یا پاناما لیکس کا مقصد سیاسی عدم استحکام کے ذریعے پاکستان کو لیک کرنا ہے،حکومت ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سول ملٹری تعلقات کی ہم آہنگی خراب نہیں ہونے دے گی۔وقت سے پہلے گرمی کی لہر حالیہ لوڈشیڈنگ کی بڑی وجہ ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی،بھارتی صحافی ونود شرما اور بھارت میں قید پاکستانی بچوں کے والدین سے بھی گفتگو کی گئی۔عارف علوی نے کہا کہ عمران خان نے’گونواز گو‘ کے نعرے کو قومی ترانہ سے تشبیہ نہیں دی ، نعرے کی مقبولیت کی وجہ سے انہوں نے قومی ترانے کی بات کردی ہوگی، ’گونواز گو‘ کوئی گالی نہیں ہے جو کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں دے سکتا، نیوز لیکس میں سچائی عوام کے سامنے آنی چاہئے، ذمہ داروں کے بجائے کسی اور کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے،سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے نواز شریف کو کرپٹ قرار دیدیا ہے،الحمدللہ کے ورد سے حرام کی جائیداد حلال نہیں ہوسکتی ہے ۔سینئر بھارتی صحافی ونود شرما نے کہا کہ بھارت میں قید پاکستانی بچوں کی رہائی تقریباً طے تھی لیکن بیچ میں کلبھوشن یادیو کا کیس آگیا، جیسے ہی پاک بھارت تعلقات اچھے ہوں گے یہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں گے، انڈین حکومت کا ان بچوں کو رکھنے کا ارادہ نہیں ہے۔ احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  ہم بھی اگر لوگوں کو ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگانے کی ہدایت دیدیں تو ملک جنگل بن جائے گا، ہم نے نوے کی دہائی میں یہ سب کچھ کر کے ملک کو بہت سزا دی بالآخر ہمیں میثاق جمہوریت کرنا پڑا،پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتیں حقیقت ہیں، خود کو ایماندار اور دیگر سیاسی قیادت کو چوراور غدارقرار دینے سے جمہوریت نہیں چل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ سروے کے مطابق بھی نواز شریف اور ن لیگ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر اور پارٹی ہیں، میڈیا ٹرائل کی وجہ سے ایک دو فیصد مقبولیت کم ہونا فکر کی بات نہیں ہے، پی ٹی آئی میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں لیکن پارٹی میں فیصلے عمران خان شیخ رشید کے ساتھ مل کر کرتے ہیں،دھرنے کے دنوں میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے مجھے کہا کہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر چڑھائی نہیں کریں گے لیکن عمران خان نے شیخ رشید کے کہنے پر پی ٹی آئی کی باقی قیادت کو نظرانداز کر کے چلنے کا فیصلہ کردیا۔احسن اقبال نے کہا کہ لیاقت جتوئی ن لیگ اس لئے چھوڑ کر گئے کہ ہم نے انہیں شامل نہیں کیا،لیاقت جتوئی ن لیگ میں شامل ہونا اور آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن ان کا ماضی کا کردار آڑے آگیا، لیاقت جتوئی کو ماضی میں ہم نے سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا لیکن انہوں نے پارٹی کو دھوکا دیا۔انہوں نے کہا کہ نیوز لیکس کی رپورٹ وزیر داخلہ کے کہنے کے مطابق جلد آجائے گی، کچھ سیاستدان اپنے بیانات سے فالٹ لائنز پر ہٹ کررہے ہیں، ان کا مقصد سول ملٹری تعلقات خراب کر کے ملک اور حکومت کو غیرمستحکم کرنا ہے، وزیراعظم ملکی مفادات اور ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے مناسب اقدامات  کریں  گے۔وزیراعظم نے خود پر رکیک حملوں کے باوجود باوقار رویہ اپنائے رکھا اور کبھی مخالفین کو جواب نہیں دیا۔عارف علوی نے کہا کہ عمران خان نے’گونواز گو‘ کے نعرے کو قومی ترانہ سے تشبیہ نہیں دی ، البتہ اس نعرے کی مقبولیت کی وجہ سے انہوں نے قومی ترانے کی بات کردی ہوگی، لوگوں کو غدار قرار دینے کا سلسلہ پاکستانی سیاست سے کافی کم ہوچکا ہے، یہاں یہ اچھی بات رکھی گئی کہ ’گونواز گو‘ کا نعرہ نہیں لگنا چاہئے، میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت تو کہتے ہی اسے ہیں کہ لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں، ’گونواز گو‘ کوئی گالی نہیں ہے جو کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں دے سکتا ہے، یہ نعرہ تو پڑھا لکھا شخص ہی لگائے گا جس کو تمام معاملات کا علم ہو، ایک کرپٹ آدمی جس کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں بار بار یہ کہا گیا ہے لیکن ن لیگ توقع کرتی ہے کہ عوام الناس اس رائے کا اظہار نہ کرے، میں قطعاً نہیں سمجھتا کہ ’گونواز گو‘ کو سلجھے ہوئے لوگوں کا نعرہ نہیں ہونا چاہئے ، یہ تو سلجھے ہوئے لوگوں کا ہی نعرہ ہونا چاہئے میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ تنازع نہ بنے۔حامد میر نے پروگرام میں بتایا کہ پاکستان کے تین بچے جولائی 2016ء میں نارروال کے علاقے میں غلطی سے سرحد پار کر کے انڈیا چلے گئے جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا، جو تصویر ریلیز کی گئی ہے اس میں انڈین فوج نے ان بچوں پر بندوقیں تانی ہوئی ہیں ، تصویر میں واضح نظر آرہا ہے کہ دو بچے تو بہت ہی چھوٹے ہیں جبکہ ایک نوجوان ہے جس نے سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں کیونکہ یہ وہاں شادی میں شرکت کیلئے گیا تھا۔بھارت میں قید بچوں میں سے علی رضا کے والد اللہ رکھا نے بتایا کہ میرے بیٹے کی عمر سولہ سال ہے، ہم شادی پر نارروال کے نزدیک گاؤں گئے تھے ، یہ بچے ہمیں بتائے بغیر سرحد دیکھنے چلے گئے تھے، ہماری حکومت نے سرحد پر تار نہیں لگائے ہوئے ہیں۔محمد شہزاد کی والدہ نسیم اختر نے کہا کہ ہم لاہور سے سرحد کے نزدیک گاؤں شادی میں شرکت کیلئے آئے تھے، تینوں بچے کسی کو بتائے بغیر سیر کرنے کے بہانے موٹرسائیکل پر باہر نکل گئے تھے، دو دن بعد ہمیں کسی نے بتایا کہ ہمارے بچے انڈیا چلے گئے ہیں، انہوں نے ہمیں نیٹ پر تصویریں بھیجیں اور تھوڑی دیر بعد ہمیں کال کی اور کہا کہ ہم انڈیا میں ہیں آپ فکر نہ کریں بہت جلدی ہمیں چھوڑ دیں گے، اب دس ماہ ہوگئے ہیں مگر انہوں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے، ہم تو انڈین حکومت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے بے گناہ بچوں کو رہا کر کے پاکستان بھیج دیں۔
تازہ ترین