• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں میں آپریشن سے بچ کر فرار ہونے والے دہشت گردوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں ایسی پناہ گاہیں تلاش کر لی ہیں جہاں وہ آبادی کے درمیان چھپ کر رہ سکیں اور موقع ملنے پر نرم اہداف کو نشانہ بناسکیں۔ پیر کی شام کراچی کے انتہائی مصروف علاقے اردو بازار میں رینجرز نے کالعدم تنظیم کے مشتبہ افراد کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر ایک چھاپہ مارا جو خونریز مسلح تصادم میں تبدیل ہو گیا اور مقابلہ رات کے تین بجے تک جاری رہا۔ اس کارروائی میں چار مشتبہ دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ ایک خاتون اور تین ماہ کی بچی جاں بحق ہوئی۔دہشت گردوں نے رینجرز کو دیکھتے ہی جو دو دستی بم پھینکے اور فائرنگ کی ان سے چار رینجرز اہلکار اور دو راہگیر زخمی ہوئے۔ کراچی کے انتہائی مصروف اور گنجان مقام کو ٹھکانہ بنا کر شدت پسند عناصر یقیناً کسی بڑی کارروائی کی تیاری کر رہے تھے مگر رینجرز کی بروقت کارروائی نے ان کے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقابلے کے دوران خود کو دھماکے سے اڑانے والے ایک شدت پسند اور فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دیگر چار دہشت گرد متعدد وارداتوں میں ملوث تھے جن میں مارچ 2015میں سیکورٹی عملے کی ایک گاڑی پر بم حملہ کر کے دو پولیس والوں کو شہید اور 15افراد کو زخمی کرنے کا واقعہ بھی شامل ہے۔بتایا گیا ہے کہ چار دہشت گردوں کو رہا کرانے کے لئے کراچی سٹی کورٹ پر بم حملہ اور فائرنگ کی واردات، میں بھی مذکورہ افراد ملوث تھے جبکہ بینکوں میں ڈکیتیاں کرنے اور تاوان کے لئے اے این پی کے ایک لیڈر کو اغوا کرنے کی منصوبہ سازی میں بھی انہی افراد ملوث بتایا گیا ہے۔ دہشت گردوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جب سے ملک میں خانہ شماری اور مردم شماری کے کام کا آغاز ہوا ہے، اسے ناکام بنانے کی کئی سازشیں سامنے آ چکی ہیں جنہیں ہمارے سیکورٹی اداروں نے قبل از وقت بے نقاب کر کے ملک دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔ منگل کے روز وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں بارودی سرنگ کے دھماکے کے ذریعے 14مسافروں کی شہادت کے واقعہ کو بھی بعض حلقے مردم شماری کا عمل رکوانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس کی ذمہ داری بھارت سے آپریٹ کی جانے والی جس کالعدم تنظیم نے قبول کی وہ قبل ازیں بھی مختلف ناموں سے ا یسی سرگرمیوں میں مصروف رہی ہے جن سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے وسیع ایجنڈے، خاص طور پر فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوششوں کا اندازہ ہوتا ہے۔سڑک کے کنارے نصب بارودی مواد میں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکہ کر کے جس بس کو نشانہ بنایا گیا اس میں مردم شماری عملے کے لوگ بھی شامل تھے۔ وین میں سوار 23مسافروں میں سے14شہید ہو گئے جن میں 5خواتین اور 4بچے بھی شامل ہیں۔خاصہ دار فورس کے چار اہلکاروں سمیت 9افراد زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد کے لئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کر دیا گیا۔بعد ازاں شہدا کی نماز جنازہ مرکزی امام بارگاہ پارا چنار میں ادا کی گئی اور شہدا کے آبائی علاقوں میں ان کی تدفین کر دی گئی۔ کرم ایجنسی میں اس سال کے دوران یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ان تین واقعات میں 60سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ ملک دشمن قوتیں قبائلی ایجنسیوں میں خوف وہراس کی فضا پیدا کر کے مردم شماری میں رخنہ ڈالنا چاہتی ہیں کیونکہ مردم شماری کے نتیجے میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کا ڈیٹا فوج اورسول انتظامیہ کے پاس آ جائے گا۔ پاک افغان سرحد کے دوسری طرف رونما ہونے والے بعض واقعات بھی اس ضرورت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ سیکورٹی اور سول فورسز ہی نہیں عام لوگ بھی پوری طرح چوکنا رہیں،کیونکہ پاکستان میں جنگ جیسی صورتحال کا تھیٹر ماضی میں بھی افغانستان کے راستے ہی منتقل ہوا ہےاور دانشمندی کا تقاضا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے خطرات کو کسی طور نظر انداز نہ کیا جائے۔

.
تازہ ترین