• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نائن الیون کو بیتے سولہ برس گزر چکے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ روزبروز گمبھیر ہوتی جارہی ہے، افغانستان سے شروع ہونے والی آگ پاکستان، عراق، شام ، سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے، دہشت گردی کو شکستِ فاش دینے کیلئے یوں تو تمام عالمی برادری مختلف کوششوں میں مصروفِ عمل ہے لیکن اب تازہ پیش رفت عرب دنیا اور افغانستان میں دہشت گرد تنظیم داعش کے منظرعام پر آنے کے بعدسعودی عرب کی جانب سے اسلامک ملٹری الائنس کی صورت میں ہوئی ہے جسکی سپہ سالاری کیلئے ہمارے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی تقرری پرمخصوص حلقوں کی طرف سے ردعمل کی بنا پر میں نے مناسب سمجھا کہ اس حساس موضوع کو زیرتحریر لایا جائے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق 41مسلمان ممالک پر مشتمل عسکری اتحاد کا ہیڈکوارٹرریاض میں قائم کیا گیا ہے جسکا مقصد اسلامی ممالک کو مختلف شدت پسند عسکری گروہوں بالخصوص داعش سے لاحق سنگین چیلنج سے مشترکہ طور پر نبزدآزما ہونا بتایاجارہاہے، دستیاب معلومات کے مطابق ایران کو بھی اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی جو قبول نہیں کی گئی، فی الحال ایرانی اثرورسوخ رکھنے والے ممالک شام اور عراق کے علاوہ تقریباً تمام ہی کلیدی مسلمان ممالک اس عسکری اتحاد کا حصہ ہیں جنکی سربراہی کا اعزاز پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل (ر)راحیل شریف کو حاصل ہوا ہے۔ پاکستان کی مسلمان دنیا سے وابستگی تاریخی نوعیت کی ہے، قیامِ پاکستان سے قبل برصغیر کے مسلمانوں نے تحریکِ خلافت اس زور و شور سے چلائی کہ آج بھی ترکی کے باشندے پاکستانیوں کوبرادر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، 23مارچ 1940ء کوبانی پاکستان قائداعظم کی زیرصدارت تاریخی جلسے میں قراردادِ لاہور کے ساتھ فلسطین کی خودمختاری کی قرارداد بھی منظور کی گئی تھی، 6روزہ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان وہ واحد غیرعرب ملک تھا جسکے جانباز ہوابازوں نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوادیئے،جنگ سے متاثرہ افغان مہاجرین اور بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کیلئے پاکستان نے اپنے دروازے کھول ڈالے، برما کی مظلوم روہنگیا مسلمان کمیونٹی کیلئے آواز بلند کرنے میں بھی پاکستان پیش پیش ہے، وسط ایشیائی مسلمان ممالک سوویت یونین کے آہنی شکنجے سے اپنی آزادی کا باعث پاکستان کو سمجھتے ہیں، ایران اور سعودی عرب سمیت تمام مسلمان ممالک سے پاکستان کے قریبی تعلقات قائم ہیں، پاک بھارت تنازعات کے دوران مختلف مسلمان ممالک کی بروقت امداد ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں سازگار ثابت ہوئی۔ پس ِ منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب دوسال قبل 2015ء میں پاک افواج کے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کرنے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن طلب کیا گیا تومیرا یہی نقطہ نظر تھا کہ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن اور مسلمان ممالک کے ساتھ دِلی لگاؤ کی بنا پر کسی صورت مسلم دنیا کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا اور پاکستان کو سعودی عرب کی پکار پر لبیک کہنا ہی ہوگا، میں نے بطورپارلیمنٹرین واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب دو برادر مسلمان ملک ہیں اور ہمیں سعودی عرب کی حفاظت کیلئے اپنی فوج بھیجنی چاہئے جسکا مقصد ایران یا کسی دوسرے ملک کی مخالفت نہیں بلکہ علاقائی امن کا قیام یقینی بنانا ہونا چاہئے۔ آج سعودی عرب کے زیراہتمام اسلامی عسکری اتحاد میں جنرل (ر)راحیل شریف کی بطور سپہ سالارشمولیت نے میرایہ موقف درست ثابت کر دیا ہے، اس سلسلے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں لاہور میں1974ء میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس اجلاس کا حوالہ بھی دینا ضروری ہے کہ اس وقت تمام مسلمان ممالک کے سربراہانِ مملکت نے دشمن سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی کا تعین کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تیل سپلائی کو بطورہتھیار استعمال کرنے پر اتفاق کیا تھا،ایک لحاظ سے موجودہ اسلامی عسکری اتحادبھٹو صاحب کے اسلامی ممالک پر مشتمل مضبوط بلاک کے قیام کے وژن پر پورا اترتا ہے بشرطیکہ جنرل (ر)راحیل شریف کی ابتدائی شرائط کے مطابق عسکری اتحاد میں ایران بھی شامل ہوجائے۔ شاندار فوجی کیریئر کے حامل جنرل صاحب کی دفاعِ پاکستان کیلئے خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں، انکا تعلق پاک بھارت جنگ میں دشمن کے خلاف دادِ شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے میجر شبیر شریف شہید نشانِ حیدر کے خانوادے سے ہے،وہ ملکی تاریخ کے پہلے آرمی چیف ہیں جنہوں نے مدتِ ملازمت میں توسیع نہ لیکراپنے وقت پر ریٹائرمنٹ لی، استحکام ِ جمہوریت میں انکا کردار نہایت بے داغ رہا،آرمی پبلک اسکول پشاور حملے کے بعد قومی ایکشن پلان کی تیاری کیلئے عملی تعاون،ملٹری کورٹس کے قیام کی بدولت دہشت گردی سے متاثرہ شہریوں کو فوری انصاف کی فراہمی، ملک میں دہشت گردانہ نیٹ ورک چلانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی کامیاب گرفتاری،سرحد پار سے ڈرون حملوں کا خاتمہ، مغربی و مشرقی سرحدوں کو محفوظ بنانا، کراچی آپریشن کی بدولت شہر میں روشنیوں کی واپسی، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی حفاظت کیلئے پاک فوج کے خصوصی یونٹ کا قیام، ترقی و خوشحالی کیلئے ناگزیر گوادر بندرگاہ کا افتتاح سمیت ایسے متعدد کارنامے جنرل (ر)راحیل کے شاندار کیریئر سے منسلک ہیں، جس طرح آپریشن ضرب عضب کی کامیابی نے افغان سرحدی قبائلی علاقہ جات سے دہشت گردی کے مراکز ختم کیے آج تمام مسلمان ممالک میں بسنے والے تمام باشندے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ داعش کے شر سے معصوم افراد کو محفوظ رکھنے میں اپنا عسکری تجربہ بروئے کار لائیں گے۔ بلاشبہ پاک افواج کو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بنا پردیگر مسلمان ممالک کی افواج پر منفردمقام حاصل ہے اوراسلامی عسکری اتحاد کی سپہ سالاری کیلئے پاک فوج کے سابق سپہ سالار ہی موزوں ترین شخصیت ہیں جنکی غیرجانبداری، پیشہ ورانہ تجربہ اور امن کے قیام کیلئے کمٹمنٹ ایران کو بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کیلئے قائل کرسکتی ہے، اسلامی اتحاد کے دیگر ممبر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے ایران سے کہیں زیادہ قریبی برادرانہ تعلقات ہیں، تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان کو بطور آزاد اور خودمختار ملک تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران تھا، دونوں ممالک اقتصادی تعاون تنظیم کے بانی اراکین ہیں،ایران کشمیر ایشو پر پاکستان کے دیرینہ اصولی موقف کی حمایت کرتا ہے، فوجی اتحاد نیٹو کی طرز پردونوں برادر ممالک نے سینٹو کی بنیادیں رکھیں۔ ایسی صورتحال میں جب پاکستان کو عالمی سطح پر قائدانہ کردار اداکرنے کا موقع مل رہا ہے وہیں یہ تاثر بھی زائل کرنا ہوگا کہ یہ عسکری اتحادکسی ایک خاص مسلک کی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے بنایا گیا ہے،میری نظر میں جنرل صاحب کی سپہ سالاری دوسروں کی جنگ اپنی سرزمین پر لانے کیلئے نہیں بلکہ خطے میں جاری جنگ کا مکمل خاتمہ کرنے کا باعث بنے گی،پاکستان ایران اور سعودی عرب سمیت تمام مسلمان ممالک کے مابین غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے دہشت گردی کو شکست فاش دینے کیلئے پرعزم ہے ،وہیں پاکستان کا دفاع مستحکم ترین ہونے سے سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کے بے بنیاد دعوے اپنی موت آپ مرجائیں گے اورپاکستان کو عالمی برادری کے سامنے کشمیر پر اپنا دیرینہ موقف پیش کرنے میں آسانی ہوگی۔ ایک طویل عرصے کے بعد کسی پاکستانی شخصیت کو عالمی سطح پر اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے جسکا فخرپوری پاکستانی قوم بالخصوص عرب دنیا میں مقیم تارکین وطن کوبھی ہونا چاہئے، جنرل صاحب کی اعلیٰ کارکردگی بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے کا باعث بنے گی جبکہ ملک کا امیج بہتر ہونے سے پاکستان پر لگا دہشت گردی کابے بنیاد لیبل ختم کیا جاسکے گا۔ اقتصادی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستانیوں کیلئے اتحاد میں شامل دیگر ممبرممالک میں روزگار کے متعدد مواقع میسر آسکیں گے جنکی بدولت زرمبادلہ میں اضافہ اور ملک کی معاشی حالت میں بہتری متوقع ہے،پاکستان جے ایف 17تھنڈرطیاروں، الخالد ٹینک سمیت دیگر جنگی سازوسامان کی پیداواری صلاحیت میں خودکفیل ہے، اتحاد میں بھرپور شمولیت سے جلدپاکستان کو دفاعی پیداوارکو کھپانے کیلئے عالمی منڈیوں تک رسائی بھی حاصل ہوسکے گی۔ ہمیں اس اسلامی عسکری اتحاد کو متنازع بنانے کی بجائے دعاگو ہونا چاہئے کہ جنرل (ر)راحیل شریف کی سپہ سالاری خطے میں امن کے مستقل قیام کیلئے نیک شگون ثابت ہو۔

.
تازہ ترین