• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سناہے پٹھان قول کے پکے ہوتے ہیں۔ عمران خاں بھی خود کو پٹھانوں میں پٹھان ہی کہلاتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری انہیں پٹھان نہیں ’’کاٹھا پٹھان‘‘ کہتے ہیں کہ بقول ان کے خاں صاحب کو پشتو نہیں آتی۔ وہ پنجابی اسپیکنگ ہیں مگر یہ فروعی باتیں ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ مرد کو قول کا پکا سمجھا جاتا ہے۔ (عورتوں پر بھی اس ضمن میں کوئی پابندی نہیں) مگر خاں صاحب آج تک اپنےکسی وعدے پر نہیں ٹھہرے۔ انہوں نے دھرنے دیئے، سارے ملک کا نظام الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور کہا وزیراعظم کا استعفیٰ لے کر ہی اٹھیں گے مگر موصوف تواستعفیٰ لئے بغیر ہی اٹھ گے لیکن ان کے اٹھنے کے بعد اسلام آباد میں صفائی کا عملہ جو کچھ وہاں سے اٹھاتا رہا اس کا ذکر مناسب نہیں۔ انہوں نے ملک بھر کے عوام سے سول نافرمانی کی اپیل کی اورایک ’’محب وطن‘‘ پاکستانی کے طور پر پاکستان کی معیشت کو ’’مضبوط‘‘ کرنے کے لئے عوام سے کہا کہ وہ حکومت کو ٹیکس دینا بند کردیں۔ بجلی، گیس اور دوسرے بل بھی ادا نہ کریں لیکن لوگ ٹیکس بھی دیتے رہے، بل بھی دیتے رہے لیکن جو نہیں دیا وہ ان کی بات پر توجہ نہیں دی۔ خاں صاحب نے سرکاری ٹی وی پر حملہ کرایا، تھانے سے زبردستی ملزموں کو چھڑا کر لائے، گالی گلوچ کا ایک نیا نظام متعارف کرایا جو تاریخ میں انہی کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ ہر ایک کو چور، لٹیرا، کرپٹ، مالشیا، پٹواری اور جو منہ میں آیا وہ کہہ دیا مگر جن کو ڈاکو کہا ان کی ڈرائی کلیننگ کرکے انہیں اپنا ملبوس بنالیا۔ جسے چپڑاسی بنانے کو تیار نہیں تھے اسے اپنے سر کا تاج بنا لیا۔ ہاں صرف ایک بات ہے جس پر وہ روز ِ اول سے قائم رہے اور وہ ان کی معمولی سی خواہش ہے جو آئین میں اور تمام قوانین میں ترمیم کرکے اور بیس کروڑ عوام کو ڈرا دھمکا کر پوری کی جاسکتی ہے اور یہ معمولی سی خواہش یہ ہے کہ تمام ادارے ان کے راستے سے ہٹ جائیں اور انہیں وزیراعظم پاکستان بنا دیا جائے۔ ایک دفعہ تو انہوں نے یہ بھی کہا تھا ’’میاں جی جان دیو ساڈی واری آن دیو‘‘ مگر یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے ہم بڑے بڑے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی ردی کی ٹوکری میںپھینک دیتے ہیں!
اس حوالے سےخاں صاحب کے قول کاپکا ہونے کا بس یہی ایک ٹھوس ثبوت ہے کہ انہوں نے وزیراعظم بننے کی رٹ نہیں چھوڑی۔ انہوں نےمیڈیا پرسنز کے سامنے سو دفعہ کہا کہ وہ سپریم کورٹ کا ہرفیصلہ منظور کریں گے جس سے سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید خاں صاحب کورٹ کی سوچ کے مطابق جو بھی فیصلہ ہوگا، موصوف وہ تسلیم کریں گے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ خاں صاحب کے نزدیک فیصلہ تو ایک ہی ہے اور وہ وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دےکر ان کے لئے جگہ خالی کرنا ہے۔ چنانچہ اب خاں صاحب کو رٹ کا فیصلہ اور اپنے وعدے وعید بھول گئے ہیں۔ نوازشریف سے استعفیٰ مانگ ہی نہیں رہے، اس حوالے سے تحریک چلانے کا اعلان بھی فرما بیٹھے ہیں۔ خاں صاحب عمر کے جس حصے میں ہیں اس میں ’’روندی‘‘ مارنے کا یہ کام تو بچپن میں کچھ بچے کیا کرتے تھے، بلے بازی کرتے کرتے آئوٹ ہوتے تو وکٹیںاکھاڑ کر ساتھ لے گئے کہ نہیں کھیلیں گے نہ کھیلنے دیںگے۔ لڈو کھیلتے ہوئے ہارتے دیکھا تو سارے دانوں کو ہاتھ پھیر کر بکھرا دیا یا لڈو ہی اٹھا کر بھاگ گئے۔ مگر آپ یقیناً حیران نہیں ہوں گےکہ خاں صاحب سیاست کے کھیل میں ’’روندی‘‘ وغیرہ سب کچھ جائز سمجھتے ہیں۔ وہ ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ کھلاڑی ہار کر بھی شکست نہیں مانتا، حالانکہ ہم تو ’’اسپورٹس مین اسپرٹ‘‘ کی تعریف یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ کھلاڑی خوشی سے دوسرے کی فتح اور اپنی ہار تسلیم کرتا ہے۔ اس بیان کے ساتھ ان کا ایک اور دلچسپ بیان بھی نظر سے گزرا اور اس کی سمجھ نہ آنے کی وجہ سے مجھ گنہگار کو یہ بیان کچھ معرفانہ سا لگا ہے۔ حضرت نے فرمایا ’’کرکٹ نہ کھیلتا تو اسپتال نہ بناتا، اسپتال نہ بناتا تو تحریک انصاف نہ بناتا‘‘ بہت عرصہ پہلے غالبؔ نے عمران خاں کے اس بیان پر تبصرہ کرتےہوئے کہا ’’کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی‘‘ اوراس سے بہتر تبصرہ ممکن بھی نہیں۔ اس جملے میں ایک بات جو نہیں کہی گئی لیکن بین السطور موجود ہے۔ پورا جملہ اصل میں یوں ہے ’’کرکٹ نہ کھیلتا تواسپتال نہ بناتا، اسپتال نہ بناتا توتحریک انصاف نہ بناتا اور تحریک انصاف نہ بناتا تووزیراعظم نہ بن سکتا‘‘ تو قبلہ خاں صاحب باقی تین باتوں کے علاوہ آپ کی بین السطورکہی گئی یہ آخری بات سب سے زیادہ مخولیا قسم کی ہے۔ آپ وزیراعظم کبھی نہیں بن سکیں گے کیونکہ آپ میچور نہیں ہیں۔گزشتہ تمام ضمنی انتخابات میں آپ کے سارے امیدوار ہارتے جارہے ہیں اور نوازشریف کے رفقا مسلسل جیت رہے ہیں۔ آپ دن کو خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ رات کو بغیر کسی کوشش کے اچھی نیند آجایا کرے گی۔
کچھ عرصہ قبل خاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار پرقبضہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرچکے تھے مگر اس کے لئے بھی تو خود کو اہل ثابت کرنا پڑتا ہے جو وہ نہیں کرسکے اور یوں ان کا منصوبہ تو اگرچہ درمیان ہی میں رہ گیا لیکن اس دوران ملک کی معیشت کو کھربوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔اب کافی عرصے سے وہ اداروں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں تاکہ وہ ڈر کر ان کی من مانی کا فیصلہ ہونے دیں۔ وہ سپریم کورٹ کو براہ راست تو دھمکی نہیں دے رہے مگر فاضل جج صاحبان کو بالواسطہ یہ تاثر دینے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اگر نوازشریف کے خلاف نہ آئی اور سپریم کورٹ نے اس کی روشنی میں انہیں کلیئر قرار دیا تو پھر آپ خود سمجھدار ہیں۔ انہیں شاید علم نہیں کہ پاکستانی عوام صورتحال پر پوری نظر رکھے ہوئےہیں۔ یہ سب بات کسی بھی نیوٹرل تجزیہ کار سے پوچھ لیں۔ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگلا الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) ہی جیتے گی۔ خودانہیں بھی یقین ہے اور آپ یہ سطور سنبھال کر رکھیں ثبوت کے طور پر کام آئیں گی۔ اس کے بعد عمران خاں کا کیا (مصرف) ہوگا وہ سوچ کر مجھے ہول آتے ہیں کیونکہ مجھے عمران خاں سے بہت محبت ہےاور میں ہر نماز کے بعد ان کے ایمان، صحت اور سلامتی کی دعا مانگتا ہوں!

.
تازہ ترین