• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قدیم ہندوستان کے حکمراں بندو سرا نے ایک بار یونانی حاکم اَن طا کس اوّل(Antiochus I) سے اُس دور کی مشہور یونانی شراب، خشک انجیر اور ایک یونانی فلسفی کو ہندوستان بھیجنے کی فرمائش کی۔ یونانی حاکم کا رد عمل بندو سرا کی فرمائش سے زیادہ دلچسپ تھا۔ اِس نے جواب بھیجا کہ شراب اور خشک انجیر یقینا ہندوستان بھیجی جا سکتی ہے لیکن یونانی قوانین کے تحت کسی فلسفی کو بیرونِ سلطنت بھیجنا منع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بندو سرا یونانیوں سے بہتر تعلقات کا خواہاں تھا۔ لہٰذا اِس فرمائش کی اصل وجوہات سفارتی ہوسکتی ہیں۔ اِ س کے باپ چندرا گپتا موریا نے پنجاب کے یونانی حکمرانوں کوچُن چُن کر ختم کرنے کے بعد ایک وسیع ترسلطنت کی بنیاد ڈالی تھی۔ کہتے ہیں کہ حاکمیت کے آخری دورمیں موریانے ناراض یونانیوں سے تعلقات بحال کرنے کی کافی کوششیں کیں لیکن اُس کو زیادہ مہلت نہ مل سکی۔ اس لئے بندو سرا اِس پالیسی کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ لیکن سفارت کاری کی اِن تمام تر سرگرمیوں میں آخر اُسے یونانی فلسفی منگوانے کا خیال کیوں کر آیا ؟
در حقیقت یونانی فلسفیوں کے مشاہدات، انداز ِفکر اور نظریات نے اُس وقت کی دنیا میں ہر جگہ دھوم مچا رکھی تھی۔ بندوسرا کو حکمرانی اُس وقت حاصل ہوئی جب یونان کے مفکرین جدید سیاسیات اور فلسفے کی بنیادیں رکھ چکے تھے اور وہاں اِن علوم سے متعلق ماہرین کی نئی نسل پروان چڑھ رہی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سکندر اعظم کی آمد کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں بھی یونانی فنون اور فلسفے کے قصے شہرت پارہے تھے۔
فلسفی بہرحال ہندوستان نہیں بھیجا جا سکا! شاید بندوسرا کوذاتی طور پر کسی یونانی فلسفی کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں تھی کیوں کہ اُسے ریاستی امور پر چانکیہ جیسے قابل مشیر کی صحبت ورثے میں ملی تھی! لیکن آنے والے ادوار میں ہندوستان کے حالات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر کسی مفکر کو سچ مچ ہندوستان بھیج دیا جاتا تو آج کا جنوبی ایشیا ایک بہتر خطہ ہوتا۔ اور یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے!
جنوب مغربی یورپ میں مسلم عرب سلطنت کے قیام کے بعد بغداد سے لیکر قرطبہ تک علم و تدریس کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اِس خطے میں بہتیرے جید عالم اور فلسفی پیدا ہوئے؛ اِن میں اَلکندی، اِبن سینا اور اِبن رُشد قابل ذکر ہیں۔ عراق، شمالی افریقہ اور ہسپانیہ سمیت پوری اِسلامی دنیا اور لاطینی یورپ میں یونانی فلسفہ متعارف کرانے کا سہرا اِن ہی مسلم مفکروں کے سر جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح افلاطون کی بدولت دنیا سقراط کے فلسفے سے فیضیاب ہوئی اِسی طرح اِبن رُشد کی تحریروں نے دنیا کو ارسطو کے نظریات سے روشناس کرایا۔
یورپ کے لاطینی اور بحیرہ ِ روم سے جڑے حصوں میں یونانی فلسفے پر اِبن رشد کے نقطہ ِنظرکے طفیل روشن خیالی کانیا دور شروع ہوا۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اِبن رشد کے خیالات یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا بنیادی سبب تھے۔ اور یہی وہ دور تھا جس نے مغرب کو باقی دنیا کے لئے روشن خیالی، آزادی، سماجی ہم آہنگی، سائنسی ترقی، جمہوریت اور خوشحالی کی مثال بنا ڈالا۔
دوسری جانب صدیاں در صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی لگتا ہے جیسے پورا جنوبی ایشیا مستقل طور پر نظریاتی گمراہی اور فکری خلل کا شکار ہے۔ پہلے مسلح دہشت گرد ملک میں آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے اوراَب، کسی بھی وقت کسی بھی جگہ اچانک ایک ہجوم نمودار ہوکر کسی بھی شخص کی موت کا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ اُدھر ہندوستان گائے کا گوشت بر آمد کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن وہاں گوشت کھانے والوں کو بلوائی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ قدیم وَادی سندھ کی تہذیب پر آج بد عنوانی کا راج ہے اور اُدھر میر اور غالب کے دلّی میں اَب اکیلی عورت کا گھر سے نکلنا محال ہے۔ شاید دلّی کبھی ایسے نہیں اُجڑا تھا جیسے آج دندناتے غنڈوں کے ہاتھوں اُجڑ رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ وہاں گھس بیٹھیوں نے بھی قیامت ڈھائی تھی۔ پھر یہاں ایک تنہا جاسوس نے شہروں کا اَمن برباد کرکے رکھ دیا۔ یہ تذبذب آج بھی قائم ہے کہ پہلے سرحد پار موجود مخالفت سے نمٹا جائے یا آپس کی نفرتوں کا سدباب کیا جائے۔ پچھلی سات دہائیوں میں تنازعات اور مسائل کا کوئی حل تلا ش نہیں کیاجا سکا۔ اسی لئے لگتا ہے کہ شاید یہاں اجتماعی سوچ میں کوئی بنیادی خلل ہے جس نے معاملات کو اِدھر بھی اور اُدھر بھی مضبوطی کے ساتھ جوں کا توں رکھا ہواہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ مسئلہ کسی یونانی فلسفی کے ہندوستان نہ آنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہو ؟
یقینا یہ یونانی فلسفہ ہی تھا جس کے سبب مغرب شاید رہتی دنیا تک تہذیب کی علامت مانا جاتا رہے گا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو کے نظریات پر اَلکندی، اِبن سینا اور اِبن رُشد جیسے دانشوروں کی تشریحات نے یورپ کے باسیوں پر یہ راز کھول ڈالا کہ قدیم دیوتا ئوں سے جڑے قصے، دیو مالائوںکے سوا اور کچھ بھی نہیں! افسوس کہ کوئی یہ بات ہندوستان میں کبھی کسی کونہ سمجھا سکا کہ درحقیقت قومیں دیو مالائی کہانیوں سے نکل کر ہی آگے بڑھ سکتی ہیں۔ لہذا نہرو اور اندرا گاندھی کے سوشلسٹ نظریات پر آگے بڑھنے والا ہندستان راجیو گاندھی کے سیکولر دَور تک تو کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتا رہا لیکن اب حال یہ ہے کہ ملک کا سربراہ اپنی سنجیدہ تقاریر میں بھی وہ دیو مالائی کہانیاں انتہائی جوش اور یقین کے ساتھ سناتا ہے جنہیں یورپ صدیوں پہلے رَد کرکے ترقی کی منزلوں پر گامزن ہواتھا۔
سکندر نے پنجاب پر حکومت کی لیکن یونانی فلسفی پھر بھی یہاں نہ آیا۔ سو حالات اِدھر بھی نا گفتہ بہ رہے اور اَ ب بھی ہیں۔ دوسروں کی جان لینے والے افراد اَب ’محفوظ‘ دھرنوں میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ رہ نمائوں کا حال یہ ہے کہ وہ تحقیقات کے بغیر براہ راست اعلیٰ عدالتوں سے مخالفین کے خلاف سزائوں کی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں۔ اِدارے بھی اپنی حدود میں نہیں رہتے اور ناہی اپنے اصل کام اور مینڈیٹ سے صحیح طور پر واقف ہوتے ہیں۔ ریاست ملک کو ڈھنگ سے چلانے کے بجائے گھروں میں گھس کر شہریوں کے طرز زندگی پر فیصلے سناتی رہتی ہے۔
پاک بھارت جنگوں اور جھڑپوں کے نتائج بھی سامنے آتے رہے؛ ہاکی اور کرکٹ کے میچز کا فیصلہ بھی ہو ہی جایا کرتا ہے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ سرحد کے دونوں اَطراف ذہنی دیوالیہ پن کا مقابلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ ایک اتنا عجیب خطہ ہے کہ یہاں حملہ آور توآسانی سے پہنچ جاتا ہے لیکن کوئی دانا، کوئی فلسفی کسی حاکم کے بلانے سے بھی یہاں نہیں آتا؛ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی!

.
تازہ ترین