• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک عجیب ماحول تھا۔ ایک ایسا سہانا منظر جس کی ہوبہو عکاسی ممکن ہی نہیں۔ ہر طرف دانش کی خوشبو بکھیرتا نیشنل بک فائونڈیشن کا کتاب میلہ دراصل عالمی سطح کا ایسا پروگرام ہے جس کے لئے اہل فکر و دانش اور کتاب سے محبت رکھنے والے پورا سال انتظار کرتے ہیں۔ یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں کتاب اپنی مقناطیسی قوت سے انسانوں کی توجہ کو کھینچتی انہیں کتاب بینی کی ترغیب دیتی ہے۔ خوبصورتی سے سجے سینکڑوں ا سٹال اور ان پر ترتیب سے دعوتِ فکر دیتی وہ کتابیں جو عجائب گھر کی حیثیت رکھتی ہیں، جن میں انسانیت کی تاریخ و ثقافت کے نوادرات کو اس طرح صفحات کے کینوس پر تصویر کیا گیا ہے کہ انسانی فکر حرفوں میں پوشیدہ دانش کی طاقت سے صدیوں کا سفر کرتی گوہرِ نایاب سے مالا مال ہوتی ہے اور تخیل اگلے زمانوں کو تجسیم کر کے نئی رُتوں کی بشارت دیتا ہے۔ اس بار یہ میلہ پہلے میلوں سے کچھ زیادہ بھرپور اور نرالا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے اس میلے میں شرکت کر کے کتاب دوستی اور ادب پروری کا مظاہرہ کیا۔ پہلے دن ایک لاکھ لوگوں نے اس میلے کی رونق بڑھائی۔ بچوں، طلبا، عورتوں، مردوں کی جوق در جوق آمد نے اس منفی سوچ اور رویے کی تردید کی کہ ہماری قوم کتاب سے محبت نہیں کرتی خصوصاً نئی نسل کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں مگر ہر شخص کے ہاتھوں میں کتابوں کے تھیلے دیکھ کر دلی مسرت ہوئی اور اپنی قوم پر فخر بھی کہ وہ لفظ کی حرمت کی قائل ہو چکی ہے۔ اسے معلوم ہو چکا ہے کہ اصل طاقت علم ہے جو ہر طرح کی اخلاقی، سماجی، معاشی اور معاشرتی ترقی کی ضامن ہے، جو قوموں کی زندگی میں وقار اور منفرد شناخت کا ذریعہ ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ کچھ سالوں سے کتابوں کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ متوسط طبقے کا فرد انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لائبریریوں میں جانے کا رجحان بھی کم ہے۔ ایسے میں اگر کتابوں کی قیمت کم ہو تو لوگوں کی قوتِ خرید اور کتاب بینی میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ این بی ایف نے اس فارمولے پر عمل کر کے دکھا دیا ہے۔ اس ادارے نے کتاب اور قاری کے درمیان فاصلہ کم کرنے میں عملی طور پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر موضوع پر بہترین کتب سستے داموں چھاپ کر قاری کا سویا ہوا ذوق بیدار کر کے اسے کتاب خریدنے پر مجبور کیا ہے۔ یقینا باقی اداروں کو اس حوالے سے ان کی پیروی کرنی چاہئے۔
قومی تاریخ اور ادبی ورثہ سے منسلک تمام اداروں کو جب سے عرفان صدیقی جیسے کہنہ مشق صحافی، شاعر، دانشور اور ادیب کی سربراہی نصیب ہوئی ہے ان اداروں کا نصیب جاگ اٹھا ہے کیوں کہ ان کی کارکردگی نکھر کر سامنے آنے لگی ہے۔ بے شمار نئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب پورے میلے میں کسی وقت بھی وزیر بن کر پروٹو کول سے لدے پھندے نظر نہیں آئے بلکہ منتظم کی طرح راہداریوں، کمروں، اسٹالوں پر مہمانوں کو خوش آمدید کہتے اور انتظامات کو دیکھتے پائے گئے۔ وہ ایک مشن کے ساتھ ان اداروں سے وابستہ ہوئے ہیں اور بلاشبہ ان کی کمٹمنٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارے ان کی سربراہی میں مسلسل ترقی کی جانب بڑھتے رہیں گے اور اپنے اہداف کو حاصل کریں گے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک صوفی صفت شخص ہیں۔ ان کی رواداری اور انسان دوستی سے ایک عالم واقف ہے مگر این بی ایف میں آ کر انہوں نے جس جوش و جذبے سے ادارے کا وقار بلند کیا ہے وہ حیران کن ہے۔ تینوں دن علم، ادب اور صحافت سے وابستہ اعلیٰ شخصیات اس میلے کی رونق بڑھاتی رہیں۔ وہ شہر جو گریڈوں، نمبروں اور اعداد و شمار کے حوالے سے وجۂ شہرت رکھتا ہے تین دن لفظ اور ادب کی حرمت کے سحر میں گرفتار رہا۔ شہر کی تمام سڑکوں پر ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں اور شاعروں کی تصاویر آویزاں کر کے جہاں یہ اعلان کیا گیا کہ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے نظریات سے ملکوں کی تقدیریں سنوارتے ہیں، قوموں کی اخلاقی تربیت کرتے ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں علم دوستی اور ادب پروری کی تحریک دی گئی تھی۔ اسلام آباد کا یہ وہ واحد میلہ ہے جس میں پوری دنیا سے سب سے زیادہ ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوتے ہیں۔ یوں ادیبوں، شاعروں کو کچھ دن میل ملاقات اور مکالمے کے لئے میسر ہو جاتے ہیں کیوں کہ یہ ثقافتی میلہ نہیں بلکہ کتاب میلہ ہے اس لئے اس کی نوعیت بک ریڈنگ، بحث و مباحثہ، مذاکرہ اور ادب کی مختلف جہتوں پر مشتمل سیشنز پر ہے۔ یہ پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے اس لئے پاکستانی زبانوں کے حوالے سے سیشن سب سے بڑا پروگرام ہوتا ہے جس میں تمام پاکستانی زبانوں کے نمائندے شریک ہو کر وطن کی مٹی سے محبت کو اُجاگر کرتے ہوئے ملکی ہم آہنگی کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس میلے کی نرالی رونق کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارے مستقل تہواروں میں سے ایک تہوار بننے والا ہے۔ افتتاحی تقریب میں صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین جو خود شاعری اور ادب دوستی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں نے کتاب کے حوالے سے بہت خوبصورت گفتگو کی اور حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی جب کہ اختتامی تقریب میں احسن اقبال صاحب کا خطبہ بہت منطقی اور خوش آئند مستقبل کی تصویر دکھانے والا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ادبی اور ثقافتی میلوں کا اجراکیا۔ اجڑے ہوئے کھیلوں کے میدانوں کو آباد کیا۔ دم توڑتی ادب و ثقافت کی اقدار میں نئی روح پھونکی۔ اگر پاکستان کو اس کی چال پہ چلنے دیا جاتا تو وہ بھی چین، ملائیشیا اور جاپان بن سکتا تھا بلکہ اس سے بہتر ہو سکتا تھا مگر ہر دو تین سال بعد ترقی کی ریل کو پٹری سے اتار دیا جائے تو بات آگے کیسے بڑھ سکتی ہے۔ جمہوری نظام کے پانچ سال کی ٹرم کو استوار کرنے کے لئے ہمیں 65 سال لگے جب کہ ہندوستان نے اولین دن سے اس طرف سفر شروع کر دیا تھا حالانکہ وہ زیادہ تضادات کا شکار ملک ہے۔ اگر ملک کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہو گی تو عوامی مفادات کے منصوبے بنیں گے۔ انشاء اللہ سی پیک اور دیگر منصوبوں کے بعد پاکستان دنیا میں ابھرتی ہوئی معیشت بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ایک معتبر سروے کے مطابق 2025ء میں پاکستان پہلی پانچ معیشتوں میں ایک ہو گا۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں بلکہ ایک ایسی خبر ہے جس کا احساس ہی روح کو شاداں کر دیتا ہے۔
اس میلے میں خوشیوں اور خوشخبریوں کے ساتھ ساتھ ایک درد بھری یاد بھی تاریخ کا حصہ بن گئی جب ایک نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز اپنی شاعری کی کتاب احسن اقبال صاحب کو پیش کرنے اسٹیج پر گئی اور دھکا لگنے سے 12 فٹ نیچے گر کر دنیائے فانی سے رخصت ہو گئی۔ اس کے معصوم بچوں کے ساتھ ساتھ ہم سب ا سٹیج کے ساتھ اس خونی کنوئیں کی تعمیر کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ آخر ایسی تعمیر کی کیا ضرورت تھی پھر فرزانہ ناز کو کتاب پیش کرنی کتنی مہنگی پڑی حالانکہ سیاسی رہنمائوں کے پاس شاعری کی کتب پڑھنے کے لئے وقت کہاں ہوتا ہے یہ صرف اہلِ جنوں کا وصف ہے۔ بقول کیپٹن عطا محمد خان:
نہ میں اور نہ سرمد نے فکرِ سر رکھا
بس ایک کارِ جنوں ہے جو معتبر رکھا

.
تازہ ترین