• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کے پی کے کا قرضہ اتارنے کیلئے بجلی صارفین سے 1.8 ارب روپے وصولی کا فیصلہ

اسلام آباد(خالد مصطفی ٰ)بجلی کے صارفین جو پہلے ہی بجلی کے اداروں کی طرف سے ان کے تجارتی طورپر مختلف منصوبوں کیلئے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے 0.43 روپے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں،اب انہیں مزید 1.8 ارب روپے دینا ہوں گے جو خیبرپختونخوا کو نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی ادائیگی کیلئے واپڈا کی طرف سےلئے گئے 25ارب روپے کے قرضے پرسود کی مد میں وصول  کئے جائیں گے۔ اس مقصد کے لئے وزارت پانی و بجلی نے ایک سمری مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کو بھیجی ہے جس میں ان سفارشات کی منظوری کیلئے کہا گیا ہے جس کے تحت کے پی کے کو قسط دینے کیلئے واپڈا کے لئے گئے 25ارب روپے  کے قرضے پر سود کی مد میں 1.8ارب روپے بجلی کے صارفین سے لئے جائیں گے۔ سی سی آئی کا اجلاس کل 28 اپریل کو وزیراعظم کی صدارت میں ہو رہاہے جس میں توقع ہے کہ سود کی مد میں صارفین سے 1.8ارب کی ادائیگی کی منظوری دی جائے گی۔ قبل ازیں واپڈا نے وزارت پانی و بجلی کی سفارش سے نیپرا کو ایک درخواست دی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ 1.8 ارب روپے کو 25 ارب کے قرضے کی ادائیگی کی مد میں ٹیرف میں شامل کیا جائے مگر نیپرا نے اس کی منظوری نہ دی اور کہا تھا کہ نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی منظور ی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے دی تھی اوراس معاملے کی منظوری بھی سی سی آئی دے سکتی ہے اگر وہ ایسا کرے تو نیپرا کو کوئی اعتراض نہ ہو گا۔یاد رہے کہ 2013ء سے بجلی کے صارفین تین قسموں کے بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں جن میں اضافی ٹیکس، مزید ٹیکس اور 5 سے 7.5 فیصد تک سیلز ٹیکس میں اضافہ  شامل ہیں۔ علاوہ ازیں  صارفین تین قسم کے سرچارجز بھی ادا کرتے ہیں مگر بجلی کا شعبہ بدستور پاکستان کی معیشت کا اندھا کنواں بنا ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کا عفریت بھی  اپنی جگہ موجود ہے جو حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 385 ارب روپے تک پہنچ چکاہے ۔پاکستان میں بجلی صارفین ناصرف سالانہ 15سے 20ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ادا کر رہے ہیں جو بجلی کے شعبے کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے  لئے جاتے ہیں اور پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) کو ملتے ہیں بلکہ قرضوں کی  اصل رقم اپنی جگہ موجود ہے جو 367 ارب کے گرد پہنچ چکی ہے۔علاوہ ازیں حکومت بجلی کے ہر صارف سے ایک روپیہ 53پیسے فی یونٹ سرچارجز کی مد میں ہتھیا رہی ہے جس میں ایک روپیہ نرخ کی تصویب سرچارج، 43روپے مالیاتی لاگت سرچارج اور 10پیسے نیلم جہلم سرچارج کے طور پر وصول کئے جا رہے ہیں۔علاوہ ازیں  پارلیمنٹ میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق صارفین 7جولائی 2013ء سے 17 فیصد سیلز ٹیکس بھی اداکر رہے ہیں جو قبل ازیں 16فیصد کی شرح سے وصول کیا جاتا تھا۔ صارفین کی مشکلات کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ تجارتی و صنعتی صارفین جو ایف بی آر کی فہرست میں فعال ٹیکس دھندگان کے طور پر شامل نہیں وہ اضافی 5فیصد ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جولائی 2013ء سے بجلی کا  بل 15ہزارسے بڑھنے پر مزید 5فیصد ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ  اکتوبر 2013ء سے سیلز ٹیکس گوشوارہ نمبر (ایس ٹی آر این) نہ رکھنے والے تمام صارفین سے ایک فیصد کی شرح سے مزید ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے تاہم ان میں گھریلو اور زرعی صارفین شامل نہیں۔
تازہ ترین