• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ وزیراعظم صادق و امین نہیں رہے، میڈیا میں صادق و امین کے تصور پر بحث چھڑ گئی ہے۔ ایک صاحب کا خیال ہے کہ صادق و امین کی تعریف وسیع و عریض ہے اوراس کا اطلاق صرف مالی بددیانتی، اقربا پروری، قومی وسا ئل کے ضیاع اور عہدے سے مفادات حاصل کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس کا اطلاق ذہنی اور اخلاقی بددیانتی پر ہوتا ہے۔ آئین میں صادق و امین کی تشریح میں جھوٹا اور شرابی نہ ہونا وغیرہ وغیرہ تو شامل ہے لیکن اگر صادق و امین کا صحیح مفہوم ذہن میں رکھا جائے تو دن رات سیاستدانوں کی جھوٹی خوشامد، مبالغہ آمیز تعریفیں اور ان کے قصیدے پڑھنے والے بھی اسی کی زد میں آتے ہیں کیونکہ وہ اخلاقی، ذہنی اور زبانی بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ فی الحال میرا اس بحث کے ’’بحرظلمات‘‘ میں قلمی گھوڑے دوڑانے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اس بحث کا ایک پہلو توجہ طلب ہے۔ ایک دانشور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ دور میں جب پورا معاشرہ کرپٹ ہے سیاستدانوں سے صادق و امین یا ایماندار ہونے کی توقع گویا سمندر میں جزیرے بنانے کے مترادف ہے۔ جزیروں کو غرق کرتے ہوئے وہ یہ فیصلہ بھی سنا گئے ہیں کہ دراصل ہمارا جمہوری ورثہ ہی کرپشن کی داستان ہے اس لئے اب کرپشن لوٹ مار پر اتنا واویلا کیوں؟
یہ ’’تحقیق‘‘ پڑھ کر مجھے ذرا سا جھٹکا لگا اور میں سوچنے لگا کہ ہمارا سیاسی و جمہوری ورثہ یا میراث کیا ہے؟ ہماری سیاسی میراث قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں قائداعظم محمد علی جناح سے شروع ہوتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اوران کے نہایت قابل اعتماد ساتھی نوابزادہ لیاقت علی خان نے جس سیاسی و جمہوری میراث کی بنیاد رکھی اس کی روح ایمانداری، سچائی، ایثار، سادگی، کفایت شعاری اورحب الوطنی تھی۔ قائداعظم قیام پاکستان سے قبل بھی مسلم لیگ کی میٹنگوں اور اجلاسوں میں شرکت کے سارے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل ہائوس کے سارے اخراجات پہ کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ ان کی ایمانداری، قومی خزانے کے تقدس، انصاف، کفایت شعاری، اقرباپروری کی نفی اور ایثار پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ان کی امانت و دیانت ضرب المثل بن چکی ہے اور یہی ہماری سیاسی میراث کی بنیاد تھی۔ ایثار اور حب الوطنی کا یہ عالم کہ اپنی زندگی بھر کی کمائی اور اثاثے قوم میں تقسیم کردیئے اور قوم سے کچھ لینے کی بجائے اپنی ساری پونجی اسلامیہ کالج پشاور، انجمن حمایت الاسلام لاہور، مدرسہ الاسلام سندھ میں تقسیم کردی اور تھوڑا سا ترکہ اپنی بہن مادر ملت اور اپنی بیٹی کے لئے چھوڑا کہ یہ شرعی تقاضا بھی تھا اور خونی محبت کا تقاضا بھی ..... لیاقت علی خان نے مضبوطی سے اس میراث کو سینے سے لگائے رکھا اور ہندوستان میں ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی کے عوض پاکستان میں ایک ایکڑ اراضی بھی الاٹ نہ کروائی اور نہ ہی اپنے محلات کے عوض یہاں گھر الاٹ کروایا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان نے دہلی میں اپنے قیمتی گھر حکومت پاکستان کو تحفے کے طور پر دے دیئے جنہیں سفارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ لیاقت علی خان کہا کرتے تھے کہ جب تک آخری پاکستانی کو چھت نہیں مل جاتی، میں اپنے لئے چھت نہیں لوں گا اور جب تک آخری مہاجر آباد نہیں ہو جاتا اس وقت تک میں اپنی ترک کردہ اراضی کے عوض پاکستان میں زمین الاٹ نہیں کروائوں گا۔ لیاقت علی خان شہید ہوئے تو ان کے یتیم بچوں کے پاس نہ چھت تھی، نہ گاڑی اور نہ کوئی ذریعہ آمدنی۔ ان کی سادہ زندگی خلفائے راشدینؓ کی یاد دلاتی ہے اور ان کی بنیان میں سوراخ حضرت عمرؓ کی عظمت کردار کا معمولی سا پرتو نظرآتے ہیں۔ لیاقت علی خان کےجانشین خواجہ ناظم الدین امانت و دیانت اور سادگی کی چلتی پھرتی مثال تھے۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد محمد علی بوگرا، ان کے بعد چودھری محمد علی پھر سہروردی اور ان کے بعد چندریگر اور فوجی انقلاب سے قبل آخری وزیراعظم فیروز خان نون تھے۔ کالم کا دامن محدود ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ ان تمام حضرات کے دامن ہر قسم کی مالی بددیانتی، غیر ضروری اسراف، اقتدار سے حصول مفادات یا جھوٹ کی لعنت سے پاک تھے۔ انتخابات کے التوا اور آئین سازی میں تاخیر نے جوڑ توڑ کی سیاست کو جنم دے دیا تھا لیکن ایوبی مارشل لا سے قبل آٹھ وزرائے اعظم پر کبھی کرپشن کے معمولی سے چھینٹے بھی نہیں پڑے۔ تیسرے گورنر جنرل غلام محمد اور چوتھے گورنر جنرل اور صدر اسکندر مرزا تھے۔ دونوں کے سیاسی جوڑ توڑ اور غیر آئینی اقدامات پر جتنی بھی تنقید کی جائے کم ہے لیکن ان کا دامن کسی قسم کی بھی کرپشن سے بالکل پاک و صاف تھا۔ آج سے تین دہائی قبل مجھے ایک دوست کا خط ملا کہ کل میں سیہون شریف سے حیدرآباد آنے کے لئے ویگن پر سوار ہوا تو تعارف ہونے پر پتا چلا کہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا دوسرا مسافر سابق گورنر جنرل غلام محمد کا بیٹا تھا۔ مجھے اس کی حالت زار پر دکھ بھی ہوا اور حیرت بھی چونکہ ہم نے تو معمولی سیاسی عہدے داروں کی اولادوں کو دولت میں کھیلتے دیکھا ہے۔ اسکندر مرزا نے ساڑھے تین دہائیاں نوکری کی اور پھر وزیر اور سربراہ مملکت رہے لیکن جلاوطنی کے بعد پیٹ پالنے کے لئے لندن کے ایک ہوٹل کی نوکری کرنی پڑی۔ آج کےماحول میں کیا یہ باتیں آپ کو الف لیلہ کی داستان نہیں لگتیں؟ یقیناً لگتی ہوں گی کیونکہ آپ نے لوٹ مار کے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔تو یہ ہے ہماری سیاسی و جمہوری میراث جو 1947ء سے لے کر 1958ء کے گیارہ برسوں کے دوران پروان چڑھی۔ اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے اس لئے ہمیں کرپشن کے حوالے سے سیاسی میراث کا طعنہ نہ دیں۔ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر جنرل ایوب خان گیارہ سال تک پاکستان کے ’’سیاہ و سفید‘‘ کے مالک رہے۔
’’فرزند نوازی‘‘ کے علاوہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ نہ انہوں نے قومی وسائل یا خزانے کے تقدس کو مجروح کیا اور نہ ہی بیرون ملک اثاثے بنائے۔ یحییٰ خان ملک توڑ گیا لیکن ایک روپے کی بھی مالی بددیانتی کا مرتکب نہ ہوا۔ بھٹو صاحب جمہوریت کے علمبردار ہونےکے باوجود آمرانہ مزاج رکھتے تھے لیکن انہوں نے نہ کوئی مالی بددیانتی کی اور نہ ہی بیرون ملک اثاثے بنائے۔ قذافی سے ملنے والے ڈالرز کا الزام حزب مخالف کی اختراع ہے جس کا آج تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جنرل ضیاء الحق سخت گیر کوڑے مار فوجی حکمران تھے لیکن اپنی ذاتی زندگی میں صاف شفاف۔ اندرون و بیرون ملک اثاثے بنانے کا ان پر کوئی الزام نہیں۔ محمد خان جونیجو نہایت ایماندار اور کفایت شعار وزیراعظم تھے۔
مختصر یہ کہ 1947ء سے لے کر 1988ء تک پاکستان کے جتنے حکمران بنے، ان کا دامن مالی کرپشن لوٹ مار سے صاف ہے یہ سارے حکمران قیام پاکستان سے قبل کی پیدائش تھے اور انہوں نے خاصی حد تک صاف ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ ہماری یہ 41برس پر محیط سیاسی میراث قابل فخر ہے۔ ہمیں اس کا طعنہ نہ دیں بلکہ خرابی کی جڑ کہیں اور تلاش کریں۔ 1988ء سے لے کر اب تک حکمراں اشرافیہ کا تعلق قیام پاکستان کے بعد کی نسل سے ہے اور اسی دور میں لوٹ مار، کرپشن، اقربا پروری، کمیشن خوری، اندرون بیرون ملک اثاثے اور دولت کے پہاڑ بنانے کا غدر برپا ہوا۔ 22گریڈ کا افسر ایک سابق آمر سعودی تحفہ قبول کرنے سےپہلے ہی ارب پتی بن چکا تھا۔ ان 29برسوں میں کرپشن کی شرمناک داستانیں قوم کی گردن میں طوق بن کر لٹک رہی ہیں۔ مقام فکر ہے کہ ہماری روشن سیاسی میراث کیونکر اور کیسے اندھیروں میں ڈوبی، ہمارے ساتھ یہ سانحہ کیوں ہوا؟ دولت کی سیاست، ضمیر اور وفاداریوں کی خریدو فروخت، انتخابات جیتنے، حکومتیں بنانے اور ہٹانے میں دولت کا استعمال کب شروع ہوا اور کرپشن کا کلچر کیسے پروان چڑھا؟ ان پر غور کیجئے اور اس اندھیر نگری سے نکلنے کی راہ تلاش کیجئے۔

.
تازہ ترین