• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرکاری کتاب میلہ اور تو کچھ نہیں کرسکا البتہ ایک شاعرہ فرزانہ ناز کی جان لے گیا ہے۔ فرزانہ ناز اسٹیج سے گری، زخمی ہو کر طبی امداد کی منتظر رہی، اقتدار میں شامل تین چار ہستیوں کی موجودگی اتنی ’’بابرکت‘‘ تھی کہ ایک گھنٹہ ایمبولنس ہی نہ آسکی۔ یہ بات میں جام پور یا سانگھڑ کی نہیں کررہا، یہ واقعہ اسلام آباد میں ہوا۔ گھنٹے بعد جب زخمی شاعرہ کو اسپتال لے جایا گیا تو وہ اس جہان سے ہجرت کرچکی تھیں۔ اخباری خبروں کے مطابق اب کچھ لوگ فرزانہ ناز کے شوہر پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ منہ بند رکھا جائے۔ شاعرہ مرحومہ تو اسٹیج سے گریں ، کچھ عرصہ پہلے ایک مسلم لیگی خاتون لاہور کے چنبہ ہائوس میں مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔کمرہ ایک ایم این اے کا تھا، اس وقت بھی طاقت کا استعمال کیاگیا، پہلے خاتون سے نشہ آور چیزوں کو منسلک کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر اس کے خاوند کو پوری طاقت سے سمجھا دیا گیا کہ وہ زیادہ باتیں کرنے کےبجائے منہ بند رکھے۔
مجھے فرزانہ ناز کی موت کا دکھ اس لئے بھی زیادہ ہے کہ چند روز پہلے میں ناصرہ زبیری کے شعری مجموعے کی تقریب رونمائی میں گیاتو وہاں کہیں فرزانہ ناز بھی تھیں۔ میں تقریب سے واپس آیا تو فرزانہ ناز کا فون آیا، کہنے لگیں .... ’’میں آپ سے ملنا چاہتی تھی، میری زندگی کی خواہش تھی کہ میں آپ سے ملوں مگرآپ وہاں زیادہ دیر رکے نہیں.....‘‘ میں نے فرزانہ ناز کی باتیں سن کر کہا کہ اچھا کسی روز ملاقات کرتے ہیں مگر افسوس کہ یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ فرزانہ ناز کی خواہش کو حسرت تک لے جانے میں ’’سرکاری کتاب میلے‘‘ کا مرکزی کردارہے۔
اس واقعہ نے مجھے بشیرے پہلوان کا قصہ یاد کروادیا ہے۔ میرے دوست بودی شاہ نے کچھ عرصہ پہلے مجھے یہ قصہ سنایا تھا۔ بودی شاہ نے بتایا کہ..... ’’ہمارے علاقے میں ایک بشیرا پہلوان ہواکرتا تھا، ایک طرح سے پورے علاقے پر بشیرے پہلوان کاقبضہ تھا۔علاقے میں تمام اسکول ٹیچرز، پٹواری، پولیس اور دیگر سرکاری عملے کے علاوہ پہلوان نے امام مسجد بھی اپنا رکھا ہوا تھا۔ بشیرے پہلوان کا ذاتی کاروبار دوائیوں کا تھا۔ وہ کسی اور کی دوائیاں نہیں بکنے دیتا تھا۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا اسٹور کھول بھی لیتا تو بشیرا پہلوان سرکاری اہلکاروں کے ذریعے اس اسٹور کاسارا کام ٹھپ کروا دیتا۔ بشیرے نے بڑی چالاکی سے پورے علاقے کے ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی چھوٹاپہلوان رکھا ہوتا تھا۔ بشیرا خود ہیڈپہلوان تھا۔ اگر کوئی جعلی دوائیوں کے سلسلے میں منہ کھولتاتو بشیرا پہلوان اپنے چھوٹے پہلوانوں کے ذریعے اسے بے عزت کروادیتا۔ بشیرے پہلوان کے لئے سب سے اہم سرکاری اسپتال تھا۔ اس کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ سرکاری اسپتال کا سربراہ اس کی مرضی کا ہونا چاہئے۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے من پسند ڈاکٹر کو اسپتال کا سربراہ لگوا لیتا۔ اس سلسلے میں کچھ کام بشیرے کا منشی بھی کرتا تھا۔ بشیرے پہلوان کامنشی بشیرے سے بھی کہیں بڑا کاریگر تھا۔ اسے چھوٹے اسٹوروں سےپیسہ اکٹھا کرنا آتا تھا۔ وہ سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مل کر کبھی مچھر مارادویات کے چھڑکائو کا پروگرام ترتیب دیتا تو کبھی موسمی امراض کے لئے لمبا چوڑا مفید ترین پروگرام بنا ڈالتا۔ ترتیب کی اس ساری جادوگری میںاس کا اصل پروگرام پیسے بنانا ہی ہوتاتھا۔ وہ خوب پیسے بناتا، کبھی کبھی تو وہ سادہ لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے ’’قسمت پڑیوں‘‘ کا کام شروع کردیتا۔ وہ پورے علاقے میں جہاں سے جی چاہتا پہلوان کی مرضی سے بھتہ وصول کرتا۔ لوگ جب تنگ ہوتے، بشیرے پہلوان کے پاس جاتے تو بشیرا اپنے منشی ہی کا بتایا ہوا حسین مستقبل کا نقشہ بیان کردیتا۔ بشیرا پہلوان لوگوں سے کہتاکہ ہمارے علاقے میں یہ ہوگا، وہ ہوگا، بس آپ دیکھیں گے کہ ہماراعلاقہ سب علاقوں سے آگے ہوگا۔ ایک طرف یہ باتیں جاری رہتیں تو دوسری طرف بشیرے پہلوان کا منشی پیسے اکٹھے کرکے علاقے سے دور چھوڑ آتا۔ منشی کی کاریگری تھی کہ وہ تمام ناکے خوبصورتی سے کراس کرتا اور ناکے والوں کو مطمئن بھی کردیتا۔ اگر کسی کو شک گزرتا تو وہ یقین کی پختگی کے لئے ناکے پر ہی نماز پڑھنا شروع کردیتا جیسا کہ میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ بشیرے پہلوان کا اصل کام جعلی دوائیاں بیچنا تھا اس مقصدکے لئے وہ سرکاری اسپتال کا سربراہ اپنی مرضی کا رکھتا۔ پہلے ڈاکٹر نےبھی تھوڑی بہت مستیاں کی تھیں۔ وہ ڈاکٹراخباروں کو انٹرویوز بہت دیتا تھا۔ بشیرا ڈاکٹر کی اس تشہیر سے بہت تنگ تھا۔ جب اس کے جانے کا وقت آیا تو بشیرے پہلوان کے کچھ دوستوںنے مشورہ دیا کہ ڈاکٹراسحاق کو لے آئو۔ وہ ہڈی جوڑ توڑ کازیادہ ماہر ہے۔ اچھا سرجن ہے۔ اس مشورے کے جواب میں بشیرے پہلوان نے کہا کہ اتنے بڑے ماہر کی ضرورت نہیں اگر یہ آگیا تو پھر جعلی دوائیوں کا کام نہیں ہوگا کیونکہ میں نے ڈاکٹراسحاق کے بارے میں سن رکھا ہے کہ وہ جعلی ادویات کے بہت خلاف ہے۔ میں تودراصل ایسا بندہ ڈھونڈرہا ہوں جو جعلی ادویات بھی بکنے دے اور خود بھی اس میں شامل ہو جائے یا پھر ایسا سادہ سا ڈاکٹر ڈھونڈ رہا ہوں جس کو کچھ پتا ہی نہ چلے۔ بالآخر پہلوان نے ڈاکٹراصغر جٹ کو چن لیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ و ہ ڈھیلے ڈھالے انسان ہیں۔ انہیں جعلی دوائیوں کے کاروبارکا کچھ پتا نہیں۔ بشیرے پہلوان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔وہ ڈھیلا ڈھالا ڈاکٹر تو بہت ہوشیار نکلا۔اسے اخباری رپورٹوں اور انٹرویوز سے کوئی غرض نہ تھی۔ بظاہر سادہ سے ڈاکٹر نے جونہی جعلی ادویات کے بارےمیںپروگرام شروع کیاتو بشیرے کو اندازہ ہوا کہ اس نے جس کوبڑا سادہ سمجھا تھا وہ تو بڑا ہوشیار آدمی نکلا۔ بس پھر اس ڈاکٹر نے جیسے جیسے اپنا دائرہ کاروسیع کیاتو بشیرے پہلوان کاکام مندی کا شکارہونا شروع ہوگیا۔ لوگ بہت خوش تھے کہ چلو کسی کوتو جعلی ادویات کے خاتمے کے بارے میں کچھ کرنے کا حوصلہ تو ہوا۔ پنچایت بھی جعلی ادویات کے بارے میں بتانےلگی اور تو اور علاقے کے جو لڑکے کھیلتے تھے، ان سب نے بھی اس بات کی حمایت کی کہ جعلی ادویات کا دھندہ بند ہونا چاہئے.....‘‘
مجھے بودی شاہ کا سنایا ہوا پرانا قصہ شاعرہ فرزانہ ناز کی موت پر یاد آگیا ہے۔ فرزانہ ناز کا شعری انداز دیکھئے؎
تماشہ گر ہمیشہ سے پسِ دیوار ہوتا ہے
کہانی خود نہیں بنتی، کہانی کار ہوتا ہے
مری حیرانیوں پہ مسکرا کے مجھ سے کہتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں سب کچھ مری سرکار ہوتا ہے

.
تازہ ترین