• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حامد میر نے عدالت میں خلیل جبران کا حوالہ دیئے جانے پر کالم لکھا تھا۔ آج میرے سامنے جسٹس کھوسہ کا فلم گاڈ فادر کا حوالہ ہے، جس میں سبق یہ ہے کہ منظم طریقے پرجو جرم کیا گیا ہو وہ اپنے نقوش نہیں چھوڑتا۔ پاکستان ایسی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاکستان کے اوّلین دنوں میں قائداعظم تھے کہ جنہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر مسلمانوں کو ایک منظم قوم کی طرح اور ایک علیحدہ ملک دلوانے کی کوششیں نہ کرنی پڑتی تو میرے پاس وکالت کے ذریعے کمایا ہوا، اتنا کچھ تھا کہ آرام سے زندگی بسر کر سکتا تھا۔‘‘ اس کے بعد دو سال بعد ہی لیاقت علی خاں کو قتل کیا گیا تو ان کی جیب میں چند روپے تھے، چونکہ چھوڑی ہوئی نہ جائیداد تھی اور نہ بنک بیلنس اس لئے حکومت نے بیگم لیاقت کو مختلف ممالک میں سفیر لگایا تاکہ وہ بچوں کی پرورش کر سکیں۔ اس عمر میں آکر ان کے بچے بھی ضعیف ہو گئے ہیں تو حکومت کی طرف مالی امداد کے لئے کبھی بیان دیتے ہیں اور کبھی سرکار سے درخواست کرتے ہیں مگر سرکار کو اتنی فرصت ہی کہاں۔
دن گزرتے گئے، حکومتیں بدلتی گئیں، زمانہ بھٹو صاحب کا آیا۔ ان کے خلاف غدّاری کا مقدمہ چلا، عدالت کا فیصلہ بھی پاناما لیکس کی طرح اسپلٹ آیا۔ جسٹس انوار الحق نے اپنا ووٹ ڈال کے، فیصلے کو خلاف کرنے میں باقاعدہ مدد دی اور پھر آپ سب جانتے ہیں کہ مجرموں کو صبح چار بجے پھانسی دینے کا قانون ہے مگر بھٹو صاحب کو رات دو بجے پھانسی دی گئی اور صبح چار بجے، سخت نگرانی میں گڑھی خدا بخش میں دفن کر دیا گیا۔ اگلے دن صبح ہوئی تو ضیاءالحق نے جیل کے سامنے، اپنی گاڑی رُکوا کر مرنے والے کیلئے یا پھر کسی کے لئے فاتحہ پڑھی اور سرکاری امور نمٹانے چل دیئے۔
ان کے مرنے کے بعد اور اختر عبدالرحمان کے مرنے کے بعد کسی نے نہ پوچھا کہ اولاد کے پاس بڑے گھروں میں رہنے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا۔ بعد میں آنے والوں نے سیاست کم اور دولت کے انبار اکٹھے کرنے کی طرف توجہ زیادہ رکھی۔ اب ماحول اور چہ میگوئیاں یہ تھیں کہ فلاں نے اپنی حکومت کے دور میں غیر ممالک میں ہوٹل بنا لئے، فلاں نے یورپی ممالک میں جزیرے خرید لئے۔ فلاں نے سوئٹزر لینڈ میں کروڑوں ڈالر جمع کر لئے۔ فلاں نے لندن اور امریکہ میں گھر پہ گھر خرید لئے۔ آگے بڑھے تو ہمیں پوش ٹائون کی ضیافتوں کے طفیل، جگہ بہ جگہ بنگلے ملے۔ فلاں کی دولت کے سبب ہیلی کاپٹر ملے، پھر تو ملتے گئے ملتے گئے۔ ہر ڈرائنگ روم میں بڑے تیقن کے ساتھ یہ الف لیلوی قصّے سنائے جاتے، بقول مُنّو بھائی کبھی کوئی ان کاموں کے ثبوت نہیں چھوڑتا۔ پھر بھی گلیوں بازاروں، ٹیکسی، رکشہ والوں اور سبزی فروشوں کے یہاں بھی، سارے سیاست دانوں کے قصّے ایسے سنائے جاتے، جیسے کہانی آنکھوں دیکھی ہے۔ اخباروں میں بھی چھپنے کے زمانے آئے مگر اخبار تو شام کو پکوڑے لپیٹنے کے کام آتا ہے۔ اب بڑبولے سیاست دانوں کی ریٹنگ بڑھتی گئی۔ نشوں کا جنون بڑھتا رہا، حتیٰ کہ یہی باتیں سپریم کورٹ پہنچ گئیں۔
مگر ایک طرف پہلے سپریم کورٹ میں اس آتش زدہ لاش کا ذکر چھڑ گیا، جس نوجوان نے اپنے کمرے میں، چی گویرا، مارکس اور لینن کی تصویریں لگائی ہوئی تھیں۔ جو مذہبی جنونیت کے خلاف دوستوں اور دُشمنوں کے درمیان بولا کرتا تھا۔ جس نے صرف چند دن پہلے ہی نظم لکھی تھی مگر اپنا نام نہیں لکھا تھا، نظم کا عنوان تھا ’’میں لاپتہ ہو گیا ہوں‘‘ اس کے نیچے اپنا نام بھی نہیں دیا تھا کہ اُسے معلوم تھا کہ ولی خاں یونیورسٹی میں اس کے خلاف سازش تیار کی جا رہی تھی۔ مذہب کا نام لینے والے آشفتہ سر اس کی زبان کھینچنے، اس کی کھال اُتار لینے اور ممکن ہو تو اس کو ننگا کر کے، تیل چھڑک کر آگ لگانے کو آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ سرکار کے کسی کارندے نے لاش کی بے حرمتی ہوتی دیکھی تو اُسے اُٹھایا اور قبرستان کی سمت چل پڑا۔ مولوی نے نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا۔ پھر دُنیا بھر کے اخباروں اور چینلوں نے دیکھا کہ پاکستان میں بربریت کی ایک اور داستان یوں بیان کی گئی کہ روتے روتے سارے شاعروں نے او۔یو۔پی کے مشاعرے میں مشال کے مرثیے پڑھے اور بیٹھے ہوئے سینکڑوں لوگوں نے سسکیاں لے کر، پورے ماحول کو آزردہ کر دیا۔ رحمٰن فارس نے رسولِ اکرمﷺ سے شکوہ کرتے ہوئے باقاعدہ مسدس پڑھی۔ بوگھیو صاحب نے باچا خان کے خاندان کو پکارا کہ وہ تو خود کو پٹھان کہتے ہیں، بدلہ لینے کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ ایک ہفتہ تک وہ چپ کیوں رہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو کہ مشال کی لاش کی بے حرمتی کا زخم کہ جسٹس کھوسہ کا یاد کیا ہوا گاڈ فادر کہ رئوف کلاسرا کا یاد کیا ہوا بروٹس کہ ظفر اقبال کے مصرعے میں لکھا ہوا گردِ رُسوائی کہ سلمان اکرم راجہ کے بقول یہ ذاتی رائے ہے اور سنا ہے ایجنسیاں جو اپنے بڑوں سے استفسار کریں گی، آج کل تسبیح پڑھ رہی ہیں کہ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘۔

.
تازہ ترین