• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ کے پاناما لیکس پر حالیہ فیصلے کے بعد ملکی سیاسی منظر نامہ بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو اپنی فتح قرار دے رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکمران جماعت کی طرف سے خوشی میں مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں لیکن اب یہ واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے سیاسی طور پر سخت نقصان پہنچا ہے۔ جو الزامات پہلے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں اب وہی الزامات عدالت عظمیٰ نے اپنے سوالوں کی صورت اٹھا دیئے ہیں تاہم سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو 13سوالات کا متعین ایجنڈا دیا ہے کہ وہ انہی نکات کی روشنی میں مزید تحقیقات 60روز میں مکمل کرے۔ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے، سیکورٹی کمیشن آف پاکستان اور اسٹیٹ بنک کے نمائندے شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ملک کے سیاسی حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا تھاکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرلے گی لیکن اب یہ بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا۔ مئی 2013میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں اب وہ سیاسی پختگی کاثبوت دیں گے اور اداروں کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی نہیں اپنائیں گے لیکن افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی پاناما لیکس کے حوالے سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ فوج جے آئی ٹی میں قانونی اور شفاف کردار ادا کرے گی۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل پاک فوج کے نمائندے سپریم کورٹ کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ نیوز لیکس کے معاملے پر بھی حکومت اور عسکری اداروں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں عزیر بلوچ کی گرفتاری کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی عزیر بلوچ کے دوبارہ گرفتار ہونے پر خوفزدہ اور شدید بوکھلاہٹ کاشکار ہو چکی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ جیسے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کو بھی احتساب کے شکنجے میں لایا جا رہا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں سے تحقیقات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ عزیر بلوچ نے آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کے متعلق جو انکشافات کیے تھے اب قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلم لیگ )ن) کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری اور سندھ حکومت میں شامل پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے پیش رفت جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے نجات حاصل کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو کرپشن کے خلاف احتسابی عمل کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔ اگر واقعی دونوں بڑی پارٹیوں میں شامل سیاسی شخصیات نے منی لانڈرنگ اور قومی خزانے کی لوٹ مار کی ہے تو ان کا کڑا اور بے رحم احتساب ہونا چاہئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کئی بار اقتدار میں آچکی ہے لیکن اس کے باوجود کبھی ان دونوں پارٹیوں نے کرپٹ عناصر کا قلع قمع کرنے کی کوشش نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انہی دونوں جماعتوں میں شامل سیاستدانوں پر کرپشن اور قومی خزانہ ہتھیانے کے واضح الزامات لگے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری سسٹم کو بچانے کے لئے کرپٹ اشرافیہ کو اقتدار سے باہر نکالنا ہو گا۔
پاکستانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی برسر اقتدار وزیراعظم کو اپنے خلاف کرپشن کے الزامات پر عدالت عظمیٰ میں کیس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاناما لیکس میں سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے وزیراعظم نواز شریف کو ایماندار قرار نہیں دیا۔ اگرچہ دو ججوں نے وزیراعظم کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا اور انہیں نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیا۔ باقی تین ججوں نے بھی اس معاملے کی جے آئی ٹی سے مزید تحقیقات کرانے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کا بھی کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے نواز شریف فیملی کو کلین چٹ نہیں دی بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ گڑبڑ ہے لہٰذا اس کیس کی مزید تحقیقات ہونی چاہئیں۔ البتہ پاناما لیکس کے فیصلے سے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں خاصی مطمئن اور خوش دکھائی دے رہی ہیں مگر میرے خیال میں اس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ جماعت اسلامی کو پہنچا ہے۔ کیونکہ عدالتی کمیشن کے قیام پر جماعت اسلامی کے اصولی موقف کو سپریم کورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر چار پانچ ماہ پہلے عمران خان جماعت اسلامی کے مطالبے پر عدالتی کمیشن پر اتفاق کر لیتے تو عدالت اور قوم کا قیمتی وقت ضائع نہ ہوتا اور اب تک پاناما لیکس کی تحقیقات مکمل ہو جاتیں۔ اب دیر آید درست آید کے مصداق حکومت اور اپوزیشن کواس معاملے پر سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بجا طور پر درست مطالبہ کیا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم کو وزارت عظمیٰ سے الگ ہو جانا چاہئے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی الزام لگایا ہے کہ پاناما پر خاموشی کے لئے انہیں دس ارب کی پیشکش کی گئی تھی تاہم حکومت نے اس دعویٰ کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ اب عمران خان کو یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ کس نے انہیں 10ارب روپے کی پیشکش کی تھی؟ یہ ایک حساس اور سنگین معاملہ ہے۔ اس کے بارے میں تحریک انصاف کے سربراہ کو حقائق قوم کے سامنے لانے چاہئیں۔ اس وقت پاناما ایشوپر سنجیدگی سے شفافیت کی طرف پیش قدمی ہو رہی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد عدالتی جائزے کی روشنی میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا اب سب کو انتظار کرنا چاہئے اور سیاسی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے۔ اگر دوماہ بعد عدالتی فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف آنا ہے تو اُسے بھی مسلم لیگ (ن) کو خوشدلی سے قبول کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ حکومت عدالتی فیصلے کااحترام کرے گی۔ اب حکومتی وزراء کو بھی قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہئے۔ وفاقی وزراء کو اپوزیشن کے خلاف اپنے تند و تیز بیانات کے سلسلے کو ختم کرنا ہو گا بصورت دیگر ملک میں انتشار اور انارکی پیدا ہو گی۔ عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ پاکستان میں ادارے مضبوط ہو رہے ہیں۔ اداروں کی مضبوطی سے ہی جمہوریت کو استحکام ملے گا۔ دنیا میں جہاں کہیں مضبوط جمہوری نظام موجود ہے وہاں عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار جمہوریت کے استحکام کے لئے عدالتی فیصلوں کو تسلیم کریں گے یاپھر سیاسی محاذ آرائی یونہی بڑھتی چلی جائے گی؟

.
تازہ ترین