• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی سیاست دان، میڈیا اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ پاناما لیکس کے فوبیا میں مبتلا ہیں، ملک بھر میں ہر گلی، محلے، چوراہے، اجتماعات، تقریبات غرض ہر جگہ پر پاناما لیکس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پاناما لیکس کی صورت میں ایک سال قبل دنیا بھر کے دولت مند افراد کے حوالے سے ایک اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس کی زد میں حکمراں جماعت کی اعلیٰ قیادت سمیت شریف خاندان کے دیگر افراد بھی آ گئے، حکومت مخالف جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے اس ایشو پر ایک بھرپور تحریک چلائی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ فاضل جج صاحبان پر مشتمل ایک بنچ تشکیل دیا گیا۔اس دوران ایک عدالت سپریم کورٹ کے اندر اور ایک عدالت باہر لگتی تھی، حکمراں جماعت کے وزرا اپنی اعلیٰ قیادت کے دفاع میں بھرپور انداز سے میڈیا ٹاک کرتے جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی بھرپور طریقے سے اس کوشش میں مصروف رہتے کہ شریف خاندان کو بد دیانت ثابت کیا جائے۔ 20اپریل کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا گیا جس میں تین جج صاحبان نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کرنے کی سفارش کی اور اس کے لئے 6ریاستی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا گو کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اختلافی نوٹ لکھے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا ان کا وزیراعظم کی کرسی پر براجمان رہنا درست نہیں لیکن اختلافی نوٹ لکھنے والے ان 2جج صاحبان نے بھی اکثریت رائے رکھنے والے تین جج صاحبان کے اس فیصلہ سے اتفاق کیا کہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی جائے جو دو ماہ کے عرصے میں شریف خاندان کے اثاثہ جات اور سماعت کے دوران پیش کی جانے والی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرے۔ بظاہر شریف خاندان اور حزب اختلاف نے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے لیکن نجی محفلوں میں دونوں فریقین اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کا مؤقف ہے کہ مکمل تحقیق کئے بغیر حتمی رائے دینا مناسب نہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ حکمراں خاندان کو نا اہل کرنے کا واضح فیصلہ آنا چاہئے تھا کیونکہ پانچوں جج صاحبان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ شریف خاندان نے اپنے دفاع میں جو شواہد پیش کئے وہ ناکافی ہیں۔ میری نظر میں مسئلہ کسی کی ہار یا جیت کا نہیں بلکہ ہر ایک کے لئے خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کا ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اپنی دکانداری چمکا رہی ہیں۔ میری نظر میں حقیقت یہ ہے کہ پاناما کیس پر آنےوالا عدالتی فیصلہ ایسا ہر گز نہیں جس سے عوام براہ ریاست متاثر ہوئے ہوں یا انہیں اس فیصلہ سے کوئی اختلاف ہویا اس میں حد درجہ دلچسپی ہو۔ الیکٹرونک ہو یا پرنٹ میڈیا ہر جگہ پاناما لیکس پر تبصروں اور خبروں کی بھرمار ہے جس سے لگتا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی پاناما لیکس کے سوا کوئی خبر ہے اور نہ کوئی ایشو۔ وسطی ایشیا سمیت دنیا بھر میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ترجیحات بدل رہی ہیں۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بدستور کشیدگی پائی جاتی ہے۔ چند روز قبل افغانستان کے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا گیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں افغان فوجی ہلاک ہو گئے اس حملے کے بعد وہاں کے وزیر دفاع اور چیف آف آرمی اسٹاف نے استعفیٰ دے دیا۔ ماضی گواہ ہے کہ جب بھی افغانستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا تو اس کے کچھ ہی روز بعد پاکستان میں بھی دہشت گردی کے ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے ملک بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ افغان فوجیوں کی ہلاکتوں کے بعد کی تشویش ناک صورتحال اور پاکستان کو درپیش دہشت گردی جیسے چیلنج پر ہمارے کسی سیاستداں نے کوئی ذمہ دارانہ بیان نہیں دیا اور بعض میڈیا ہائوس نے اس حساس ایشو پر کوئی ٹاک شو یا پروگرام پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پاکستان کی شہ رگ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی نے شدت اختیار کر لی تھی اور یہ تحریک روز بروز زور پکڑ رہی ہے۔ برہان وانی کی شہادت سے اب تک بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ اب ہزاروں تک جا پہنچی ہے لیکن اس کے باوجود بھارتی حکومت اور افواج کے خلاف مظلوم کشمیریوں کی مزاحمت ختم نہ کی جا سکی۔ یہاں تک کہ چند روز قبل اسکول کی بچیوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے وحشیانہ تشدد اور مظالم کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا رد عمل میں بھارتی فوجیوں نے ان معصوم بچیوں کو ایسے ناقابل فراموش ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جس پر امریکہ کا معتبر ترین اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ بھی اداریہ لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ اس امریکی اخبار میں ایک تصویر بھی دکھائی گئی جس میں ایک کیمرہ مین اپنا کیمرہ چھوڑ کر ایک زخمی بچی کو اٹھا کر اسپتال لیجا رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے اخبارات میں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم بھرپور طریقہ سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ روس کے سب سے بڑے چینل ’’رشیا ٹو ڈے‘‘ جو کہ روسی صدر کے بہت قریب تصور کیا جاتا ہے اس میں بھی کشمیری عوام پر ہونے والے بھارتی فوجیوں کے مظالم کی بھرپور کوریج دکھائی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا نہ صرف کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو اجاگر کر رہا ہے بلکہ اس سے یہ رائے عامہ بھی قائم ہو رہی ہے کہ کشمیر کے حالات اب بھارت کے قابو میں نہیں رہے اور اس مسئلے کے پائیدار حل کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ امریکہ اس مسئلے پر مداخلت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ امریکی منصوبہ سازوں کا مقصد پہلے مرحلہ میں مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو متنازع علاقہ ڈکلیئر کرانا ہے اور یہ بات مقبوضہ کشمیر کے عوام اور پاکستان کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ اس منصوبے پر عمل درآمد سے سی پیک منصوبہ بھی سبوتاژ ہو سکتا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ اگر اقوام عالم کو یہ باور کروا دیا جائے کہ مقبوضہ جموں و آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان متنازع علاقے ہیں تو وہ چین کو سی پیک جیسے عظیم منصوبہ پر مزید کام کرنے سے روکنے پر مجبور کر سکتا ہے یا کم از کم یہ کہہ سکتا ہے کہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہ ہو جائے تب تک ان متنازع علاقوں میں سی پیک سمیت کسی بھی بڑے منصوبہ پر کام نہ کیا جائے۔ اگر امریکہ حقیقی طور پر اس قسم کا کوئی منصوبہ بنا رہا ہے تو اس پر حکومت پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں کو سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے اور اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مکمل طور پر اتفاق ہونا چاہئے ورنہ امریکہ بھارت کی مدد سے ناصرف کشمیر میں مداخلت کرے گا بلکہ وہ پاکستان کے مفادات کو ناقابل نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔پاکستانی میڈیا اور سیاستدان کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے خاموشی اختیار نہ کریں۔

.
تازہ ترین